Maktaba Wahhabi

181 - 382
زیر حدیث ہذا قاضی شوکانی فرماتے ہیں: وَاسْتُدِلَّ بِہِ عَلَی جَوَازِ انْتِہَابِ نِثَارِ الْعَرُوسِ کَمَا ذَکَرَہُ الْمُصَنِّفُ ۔ وَمِنْ جُمْلَۃِ مَنْ اسْتَدَلَّ بِہِ الْبَغَوِیّ ۔ وَوَجْہُ الدَّلَالَۃِ قِیَاسُ انْتِہَابِ النِّثَارِ عَلَی انْتِہَابِ الْأُضْحِیَّۃِ[1] ’’یعنی حدیث ہذا سے بزورِ بازو شادی کے موقعہ پر نچھاور شدہ شئے کے حصول کے لیے جواز کا استدلال کیا گیا ہے جس طرح کہ مصنف نے اسے ذکر کیا ہے۔ اور جن لوگوں نے اس سے استدلال کیا ہے ان سے امام بغوی بھی ہیں۔ وجہ دلالت یہ ہے کہ خوشی کے موقع پر بزورِ بازو حاصل شدہ شئے کو قربانی کے جانوروں کے جذبۂ ایثار و تقدیم پر قیاس کیا ہے۔‘‘ نیز ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں ہے: عَنِ الْحَسَنِ وَالشَّعْبِیِ اِنَّہُمَا کَانَا لَا یَرَیَانِ بِہِ باْسًا ۔ یعنی ’’حضرت حسن بصری اور شعبی بوقت خوشی حاضری پر کوئی شئے نچھاور کرنے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے۔‘‘ اور بعض اہل علم نے اس کا جواز قصہ ایوب علیہ السلام سے اخذ کیا ہے جب وہ غسل کر رہے تھے تو سونے کی ٹڈیاں گرنی شروع ہو گئی تھیں اور وہ جمع کرتے رہے۔[2] مذکورہ دلائل کی روشنی میں فعل ہذا کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔ اس کو بدعت قرار دینا درست نہیں لیکن ضروری بھی نہیں، صرف اباحت ہے۔ اس صورت میں عموم نَھٰی عَنِ الْاِنْتِہَابِ سے مخصص ہو گا۔ (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ ۔) بموقعہ نکاح کھجور یا چھوہارے تقسیم کرنے والی روایت سخت ضعیف ہے: سوال : ۱۹ رمضان المبارک ’’الاعتصام‘‘ کے ص:۶ پر سوال تھا۔(نکاح ) کے بعد کھجوریں یا چھوہارے تقسیم کئے جانے کا۔اس کا جواب تھا:’’عقدِ نکاح کے موقعہ پر کھجور یا چھوہارے تقسیم کرنا کسی صحیح نص سے ثابت نہیں۔‘‘ اس کے متعلق مؤدبانہ گزارش ہے : عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللّٰہ عنہا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ رحمہ اللّٰه اِذَ زَوَّجَ اَوْ تَزَوَّجَ نَثَرَ تَمْرًا ۔[3]
Flag Counter