Maktaba Wahhabi

340 - 382
اور اگر ان الفاظ سے طلاق مقصود نہ ہو تو واقع نہیں ہوتی۔ جیسا کہ’’صحیح بخاری‘‘میں قصہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ میں ہے انھوں نے اپنی بیوی سے کہا تھا: ’الحَقِی بِأَہْلِکِ ۔‘[1] یعنی اپنے گھر چلی جا۔ اس کے باوجود طلاق واقع نہیں ہوئی اس لیے کہ ان کی نیت طلاق کی نہیں تھی۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( ھٰذَا اللَّفْظُ مِنْ کِنَایَاتِ الطَّلَاقِ ۔))[2] ’’یعنی لفظ مذکور طلاق کے کنائی الفاظ سے ہے۔‘‘ (ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔) طلاق رجعی اورعدت کی وضاحت: سوال :میں آج سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل اپنی ہمشیرہ ساجدہ بیگم کو فیصل آباد سے اپنے ہاں قصور لانے کے لیے گیا۔ وہاں پہنچ کر اپنی ہمشیرہ کے شوہر مسمیٰ محمد یوسف عرف بھولا ولد لال دین قوم انصاری ساکن سمن آباد فیصل آباد سے کہا کہ ساجدہ کو ہمارے ساتھ قصور بھیج دو تاکہ وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو مل آئے۔ لیکن اس نے کہا کہ میں اسے نہیں بھیجوں گا۔ پھر بھولا کے بہنوئی محمد یٰسین نے آکر سمجھایا، پہلے مان گیا مگر جب آنے لگے پھر اس نے روک دیا بلکہ کہنے لگا کہ اگر یہ قصور گئی تو میں طلاق دے دوں گا۔ محمد یٰسین نے کہا کہ تم ساجدہ کو لے جاؤ۔ میں اسے سمجھا لوں گا۔ پھر بھولا نے اپنے لڑکے ’’دانش‘‘ کو چھین لیا کہ میں اسے نہیں جانے دوں گا۔ میں اور میری بیوی آسیہ جب ساجدہ کو لے کر روانہ ہونے لگے تو بھولا نے بلند آواز سے کہا کہ میں نے ساجدہ کو طلاق دی۔ محمد یٰسین اس کے منہ پر ہاتھ رکھتا رہا مگر اس نے یہ لفظ پھر بھی کہہ دیے۔ اس صورت میں شرعی حکم کیا ہے ؟ (محمد داؤد، کوٹ اعظم خان قصور) (۲۴ستمبر ۱۹۹۳ء) جواب :صورتِ مرقومہ میں طلاق ِ رجعی واقع ہو چکی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ ٰٓیاََیُّہَا النَّبِیُّ اِِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ﴾ (الطلاق:۱) ’’اے پیغمبر( مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو۔‘‘ مذکورہ صورت میں عورت تین حیض کے بعد موجودہ شوہر کے ازدواجی تعلق سے مکمل طور پر فارغ ہو جائے گی۔ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ ﴾ (البقرۃ:۲۲۸)
Flag Counter