Maktaba Wahhabi

360 - 382
۶۔کیا طلاقِ خلع کے بعد زوجہ ایک حیض یا بصورتِ دیگر (حاملہ یا غیر حائضہ) عدتِ مطلوبہ تک بلا رجوعِ معروف زوج کے ہاں قیام کر سکتی ہے؟ (سائل عبید الرحمن چوہدری گلستان کالونی مصطفی آباد لاہور) (۳۱ مارچ ۱۹۹۵ء) جواب : (۱)عورت طلاق رجعی کی صورت میں مطلِّق زوج کے ہاں قیام کرے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ لاَ تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ﴾ (الطلاق:۱) ’’(نہ تو تم ہی) ان کو (ایامِ عدت میں) ان کے گھروں سے نکالو۔ اور نہ وہ ( خود ہی) نکلیں۔ ہاں اگر وہ صریح بے حیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) ۲۔ (الف) قرآن نے حمل والی عورتوں کی عدت مطلقاً وضع حمل بیان کی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ﴾ (الطلاق:۴) ’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔‘‘ نیز اسقاطِ حمل یا بذریعہ ڈی اینڈ سی وغیرہ سے بھی عدت پوری ہو جائے گی۔بشرطیکہ مسقط شئے میں حمل کی صلاحیت موجود ہو۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ ’’تفسیر اضواء البیان‘‘ سورۃ الحجر کاآغاز، جزء:۵۔ (ب) حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ ان کے لیے مہینوں کی کوئی قید نہیں۔ علی الاطلاق طلاق رجعی کی صورت میں وضع حمل سے قبل رجوع ہو سکتا ہے۔ ۳۔صورتِ ہذا کو اختیار کرنا کوئی مستحسن فعل نہیں کیوں کہ حدیث میں طلاق کو مبغوض عمل قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کا استعمال بقدرِ ضرورت ہونا چاہیے۔ اور وہ صرف ایک طلاق ہے۔ قرآن میں ہے: ﴿ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ﴾ (الطلاق:۱) قصۂ طلاق ابن عمر رضی اللہ عنہما میں بھی اس امر کی صراحت موجود ہے۔ ملاحظہ ہو کتب ِ احادیث و تفاسیر وغیرہ۔ موجودہ حالت میں تیسری طلاق کے بعد تین حیض انتظار کرنا ہوگا۔ اُستاذی محدث روپڑی فرماتے ہیں۔ یعنی ظاہر یہی ہے کہ تیسری طلاق کے بعد تین حیض عدت گزارے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،فتاویٰ اہل حدیث:۳/۲۹۷) قرآن میں ہے: ﴿ وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ﴾ (البقرۃ:۲۲۸) ۴۔مختلعہ حائضہ (ماہواری کے ایام بھول جانے والی) کی عدت صرف ایک حیض کافی ہے۔ حدیث میں ہے: (( فَأَمَرَہَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَرَبَّصَ حَیْضَۃً وَاحِدَۃً، فَتَلْحَقَ بِأَہْلِہَا۔)) [1]
Flag Counter