Maktaba Wahhabi

270 - 382
بیوی اور بچوں کے حقوق کی ادائیگی شوہر کے ذمہ فرض ہے کوتاہی کی صورت میں مجرم ہے۔[1] ایک مسئلہ طلاق: سوال : میری شادی کو تقریباً پندرہ سال ہو گئے ہیں، اس عرصے میں شوہر کی طرف سے ہونے والے ہر ظلم و ستم کو اللہ کی رضا سمجھ کر اس پر راضی رہی۔ لیکن ایک انتہاء ناگوار اور ناروا ظلم یہ ہوتا رہا کہ جب کبھی گھر میں جھگڑا ہوتا تو اکثر یہ کہتا ’’ جا میں نے تجھے طلاق دی‘‘ پھر محلہ اکٹھا کرکے کہتا میں نے ایک دفعہ کہا ہے ، کبھی کہتا کہ ’’ میں نے تجھے طلاق دے دینی ہے۔‘‘ یہ الفاظ اس کا معمول بنا رہا۔ پندرہ برسوں میں یہ الفاظ اس نے ہزاروں دفعہ ادا کیے ہوں گے ۔ اس دوران میرے ہاں تین بچے( دو بیٹے ایک بیٹی) پیدا ہوئے۔ اب آخری مرتبہ اس نے پھر تین دفعہ طلاق والے الفاظ دہرا دیے، یہ واقعہ ۲۰۰۳/۱/۶ کا ہے اور پھر پہلے کی طرح ہمارے محلے میں چکر کاٹتا ہے اور لوگوں کو کہتا ہے کہ ’’ میں نے بس منہ سے یہ الفاظ نکال دیے ہیں مگر میری صلح ہو سکتی ہے۔‘‘ کبھی کہتا ہے کہ ’’داتا دربار کے گدی نشین سے لکھوا لایا ہوں۔ کبھی کسی پیر فقیر سے لکھوا لایا ہوں۔‘‘ طرح طرح کے لوگ ہمارے گھر میں بھیجتا ہے کہ میری صلح ہو سکتی ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ مذکورہ تمام تر صورتِ حال کو مد نظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ کیا ہماری صلح کا کوئی ٹائم باقی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو مہربانی فرما کر اس ظالم شخص سے بچنے کے لیے فتویٰ تحریرفرما دیں تاکہ میں عدالت سے رجوع کر سکوں۔(ایک سائلہ) (۱۱ جولائی ۲۰۰۳ء) جواب : صورتِ متذکرہ بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص نے شرعی احکام کو مذاق بنا رکھا ہے ، جس سے قرآنِ مجید نے سختی سے روکا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا ﴾ (البقرۃ:۲۳۱) ’’اور اللہ کے احکام کو ہنسی نہ بناؤ۔‘‘ نیز نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: ثَلَاثٌ جِدُّہُنَّ جِدٌّ، وَہَزْلُہُنَّ جِدٌّ: النِّکَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَۃُ۔[2] ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ انھیں قصداً کرنا تو قصد ہے ہی، البتہ ان کا مذاق بھی قصد ہی ہے: نکاح، طلاق اور رجوع۔‘‘ یعنی یہ تین کا مذاقًا کرنے سے بھی واقع ہو جاتے ہیں۔ قَالَ الْخَطَّابِیُّ اتَّفَقَ عَامَّۃُ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلَی أَنَّ صَرِیحَ لَفْظِ الطلاق إذا جری علی لسان
Flag Counter