Maktaba Wahhabi

271 - 382
انسان الْبَالِغِ الْعَاقِلِ فَإِنَّہُ مُؤَاخَذٌ بِہِ وَلَا یَنْفَعُہُ أَنْ یَقُولَ کُنْتُ لَاعِبًا أَوْ ہَازِلًا أَوْ لَمْ أَنْوِہِ طَلَاقًا أَوْ مَا أَشْبَہَ ذَلِکَ مِنَ الْأُمُورِ۔‘ [1] ’’امام خطابی نے فرمایا: عام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طلاق کا صریح لفظ جب بالغ عاقل کی زبان پر جاری ہو تو یہ قابل گرفت ہے اور اب یہ کہنا اس کے لیے فائدہ مند نہیں کہ میں نے ہنسی مذاق کیا تھا، یا میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی یا اس طرح کی اور باتیں کہے۔‘‘ ان دلائل کے پیش نظر عورت کو چاہیے کہ اس مرد سے فوراً علیحدگی اختیار کرلے صلح اور نبھا کی اب کوئی صورت باقی نہیں۔ آئندہ چاہے تو اپنے ولی کی اطلاع و اجازت سے نکاح کر سکتی ہے۔[2] طلاق رجعی ،بائنہ اور مغلظہ کی تشریح اور مسئلہ عدت: سوال :طلاقِ رجعی،بائنہ اور مغلظہ کی اس طرح تشریح فرمائیے کہ کوئی بھی پہلو تشنہ نہ رہے۔ نیز یہ بھی بتائیے اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق رجعی دے۔ یعنی ایک بار اسے کہے کہ تجھے طلاق ہے پھر تین حیض یا طہر گزر جائیں۔ نہ وہ دوسری طلاق دے نہ ہی رجوع کرے تو ایسی صورت میں کون سی طلاق واقع ہو گی۔ نیز عدت کی وضاحت فرمائیے گا۔ (ایس ایس ٹی خالد مصطفی حاصلانوالہ گجرات) (۱۸ اگست ۱۹۹۵ء) جواب :طلاق رجعی وہ ہوتی ہے جس میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا اختیار رہتا ہے اور یہ منکوحہ مدخول بہا کی پہلی اور دوسری طلاق ہے۔ اور طلاق بائن وہ ہے جس میں مطلق حق رجعت کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس کی پانچ صورتیں ہیں۔ ۱۔خاوند نے طلاق رجعی دی اور عدت گزر گئی ، رجوع نہیں کیا تو اب یہ طلاق بائن بن گئی۔ ۲۔خلع میں مال کے عوض طلاق دے۔ ۳۔خاوند اور بیوی کی جانب سے ثالثوں یعنی حکمین کی طلاق بھی بائن ہوتی ہے۔ ۴۔قبل از دخول طلاق۔ اس صورت میں عورت پر عدت بھی نہیں۔ ۵۔تیسری طلاق یہ ساتھ مغلّظ بھی ہے۔ اس صورت میں نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح۔ جب تک عورت دوسری جگہ اختیاری نکاح نہ کرے ۔ مطلِّق کے لیے حلال نہیں ہوتی۔ اسے بینونتِ کبریٰ بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
Flag Counter