Maktaba Wahhabi

300 - 382
ہے کہ میں نے تین طلاق ہی دی ہیں۔ طلاق مورخہ ۹۱ء۔۵۔۲۵(۲۵ مئی۱۹۹۱ء) کودی تھی۔ کیا خاوند اب اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے یا نہیں۔ آیا تین طلاق ہو گئی یا نہیں۔ شریعت کا اس مسئلہ میں کیا حکم ہے؟(ایک سائل) (۳ جنوری ۱۹۹۲ء) جواب :سیاق کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شوہر کا مقصود لفظ’’قطعی حرام‘‘ سے طلاق ہی ہے لہٰذا یہ لفظ اس مقام پر طلاق پر ہی محمول ہو گا۔ حافظ ابن حجر’’تلخیص الحبیر‘‘ میں اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مختلف مذاہب بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: (( وَأَمَّا ابْنُ مَسْعُودٍ فَرَوَاہُ الْبَیْہَقِیُّ مِنْ طُرُقٍ مِنْہَا نِیَّتُہُ فِی الْحَرَامِ مَا نَوَی إنْ لَمْ یَکُنْ نَوَی طَلَاقًا فَہِیَ یَمِینٌ )) ’’یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ حرام کے لفظ میں نیت کا اعتبار ہے اگر طلاق کی نیت کرے تو طلاق ہو گی اگر طلاق کی نیت نہ کرے تو قسم ہے۔‘‘ بنا بریں مؤید بالدلائل مسلک کے مطابق چونکہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں۔ اس لیے صورتِ مرقومہ میں طلاق رجعی واقعی ہوئی ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے: ((کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً)) [1] ’’یعنی ایک مجلس کی تین طلاقیں عہد نبوی و خلافت صدیقی اور دو سال خلافت ِ فاروقی میں ایک طلاق شمار ہوتی تھیں۔‘‘ لہٰذا عدت کے اندر رجوع ہو سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر تجدیدِ نکاح بھی درست ہے۔ (ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔) ایک مجلس کی تین طلاق کی شرعی حیثیت: سوال :ایک شخص نے ۹۶۔۳۔۱۴ کو اپنی منکوحہ کو تحریری طور پر تین طلاق کا نوٹس بھجوایا۔ اور مقامی ٹاؤن کمیٹی کو بھی اس طلاق نامہ کی فوٹو کاپی مع درخواست (نوٹس نمبر:۱) طلاق ہذا کو مؤثر قرار دینے کے لیے بھجوا دی۔ بعد ازاں شخص مذکور نے ۹۶۔۴۔۱۴ کو نوٹس نمبر:۲ مقامی ٹاؤن کمیٹی کو بھجوایا کہ اس نے اپنی زوجہ کو ۹۶۔۳۔۱۴ سے تین طلاق دے دی ہے۔ لہٰذا طلاق مؤثر کی جائے۔ بعد ازاں ۹۶۔۹۔۱۸ کو برادری کے چند معززین فریقین کے مابین صلح کرانے کے لیے جمع ہوئے۔ مگر صلح نہ ہو سکی۔ اسی روز ۹۶۔۹۔۱۸ کو ٹاؤن کمیٹی کے اہل کار شخصِ مذکور سے نوٹس برائے تشکیل ثالثی
Flag Counter