Maktaba Wahhabi

400 - 382
نہیں۔ مشہور صحابی حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے باپ کا اصل نام عمرو تھا۔ لے پالک ہونے کی وجہ سے اس کی نسبت اسود بن عبد یغوث زہری کی طرف ہے۔ انھوں نے اسی نسبت سے شہر پائی۔ ’’صحیح بخاری‘‘ کے شارح ابن بطال، نے کہا ہے کہ: (( لَیْسَ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِیثِ أَنَّ مَنِ اشْتَہَرَ بِالنِّسْبَۃِ إِلَی غَیْرِ أَبِیہِ أَنْ یَدْخُلَ فِی الْوَعِیدِ کَالْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ وَإِنَّمَا الْمُرَادُ بِہِ مَنْ تَحَوَّلَ عَنْ نِسْبَتِہِ لِأَبِیہِ إِلَی غَیْرِ أَبِیہِ عَالِمًا عَامِدًا مُخْتَارًا وَکَانُوا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ لَا یَسْتَنْکِرُونَ أَنْ یَتَبَنَّی الرَّجُلُ وَلَدَ غَیْرِہِ وَیَصِیرُ الْوَلَدُ یُنْسَبُ إِلَی الَّذِی تَبَنَّاہُ حَتَّی نَزَلَ قَوْلُہُ تَعَالَی ادْعُوہُمْ لِآبَائِہِمْ ہُوَ أقسط عند اللّٰه وقولہ تعالی وما جعل أدعیاء کم أبناء کم فَنُسِبَ کُلُّ وَاحِدٍ إِلَی أَبِیہِ الْحَقِیقِیِّ وَتَرَکَ الِانْتِسَابَ إِلَی مَنْ تَبَنَّاہُ لَکِنْ بَقِیَ بَعْدَہُ مَشْہُورًا بِمَنْ تَبَنَّاہُ فَیُذْکَرُ بِہِ لِقَصْدِ التَّعْرِیفِ لَا لِقَصْدِ النَّسَبِ الْحَقِیقِیِّ کَالْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ وَلَیْسَ الْأَسْوَدُ أَبَاہُ وَإِنَّمَا کَانَ تَبَنَّاہُ وَاسْمُ أَبِیہِ الْحَقِیقِیُّ عَمْرُو بْنُ ثَعْلَبَۃَ ۔)) [1] بنا بریں مذکور نکاح درست ہے۔ تردد کی ضرورت نہیں۔ والد کے فوت ہو نے کے ۴ سال بعد پیدا ہونے والا بچہ کس کی طرف منسوب ہو گا؟ سوال : والد کے فوت ہونے کے چار سال بعد پیدا ہونے والا بچہ کیا کہلائے گا؟ آیا مرحوم والد ہی اس بچے کا والد تحریر ہو گا؟ (ڈاکٹر حق نواز قریشی، راولپنڈی) (۵ جولائی ۲۰۰۲ء) جواب : چھ ماہ سے لے کر چار سال تک پیدا ہونے والا بچہ متوفی باپ کی طرف منسوب ہوتا ہے بشرطیکہ عورت بعد میں کسی کی زوجیت میں نہ ہو۔ اگر لونڈی ہے تو کسی کی ملکیت میں نہ ہو۔ فقہائے شوافع اور حنابلہ اور ایک قول کے مطابق مالکیہ کا یہی مسلک ہے۔ (بحوالہ کتاب الثمار الیانعہ،ص:۱۲۶) رضاعی ماں باپ کو امی ابو کہنا: سوال :جناب حافظ ثناء اللہ صاحب!۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ! رضیہ بیگم نے اپنے شوہر اقبال احمد کی ہمشیرہ زہرہ بیگم کو اپنا چار ماہ کا بیٹا خدا واسطے دے کر یہ کہا کہ آج سے یہ آپ کا بیٹا ہے۔ اقبال احمد نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر زندگی میں تم نے کبھی اس کی واپسی کا مطالبہ کیا تو میں تمھیں
Flag Counter