Maktaba Wahhabi

239 - 382
حَدَّ لِاَقَلِّہٖ وَ عَلَی التَّقْدِیْرِ فَقَالَ مَالِکٌ وَّ اَبُوْ حَنِیْفَۃَ اَقَلُّہٗ مَا یُقْطَعُ بِہٖ یَدُ السَّارِقِ وَ ہُوَ عَشْرَۃُ دَرَاہِمَ اَوْ دِیْنَارٌ عِنْدَ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ اَوْ رُبُعُ دِیْنَارٍ اَوْ ثَلٰثَۃُ دَرَاہِمَ عِنْدَ مَالِکٍ)) ’’ یعنی امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک مہر کی کم از کم مقدار متعین نہیں۔ ہاں امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک متعین ہے اور تعیین کے لیے وہ فرماتے ہیں کہ جس نصاب کے چوری کرنے پر چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے ، وہ مقدار کم از کم مہر ہو۔ البتہ اس کی تعیین میں ان دونوں کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ مقدار ایک دینار یا دس درہم ہے۔ اور امام مالک کے نزدیک تین درہم یا ۴/۱ دینار۔ ۴۔جامع الترمذی(۱/۲۱۱) بَابُ مَا جَائَ فِی مُہُوْرِ النِّسَآئِ میں ہے: (( إِخْتَلَفَ اَھْلُ الْعِلْمِ فِی الْمَھْرِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ الْمَھْرُ عَلٰی مَا تَرَاضَوْا عَلَیْہِ وَ ہُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ وَ الشَّافِعِیِّ ۔)) ’’سفیان ثوری، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما کے قول کے مطابق مہر کی وہ مقدار ہے جس پر فریقین راضی ہو جائیں۔‘‘ ہماری تحقیق کے مطابق یہی قول راجح اور اقرب الی الصواب ہے کیونکہ اس کی تائید احادیث شریفہ سے ہوتی ہے اور جو تعیین کے اقوال ہیں، ان کی تائید میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں۔ اب ہم ان دلائل کا ذکر کرتے ہیں جن کی روشنی میں علماء وفقہاء امت کی مقدار کی عدم تعیین کا فتویٰ دیتے ہیں: ۱۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک عورت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہا: یا رسول اللہ! میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور بیٹھ رہے۔ وہ بھی بیٹھ رہی ۔ ایک صحابی کھڑے ہوئے فرمایا:’’ یا رسول اللہ ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حاجت نہیں تو اس کا نکاح مجھ سے کردیجیے۔‘‘ آپ نے دریافت فرمایا: ’’تیرے پاس کچھ ہے ؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جا اور تلاش کرکے لا۔‘‘ وہ گیا اور خالی ہاتھ لوٹ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا ، کچھ تو لا۔ خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔‘‘ وہ آیا اور بولا ۔ یا رسول اللہ! کچھ بھی نہیں ملا۔ میرے پاس صرف ایک چادر ہے ۔ آدھی اسے دے دوں گا۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ چادر پہنے گا تو یہ بغیر چادر کے رہے گی اور اگر یہ پہنے گی تو تجھ پر نہ رہے گی۔‘‘ اس پر وہ نا امید ہو کر جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا لیا اور پوچھا : کیا تجھے قرآن زبانی یاد ہے اس نے کہا جی ہاں فلاں فلاں سورتیں مجھے زبانی یاد ہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا : جا تجھے جتنا قرآن یاد ہے اس کے بدلے تجھے اس کا مالک بناتا ہوں(یعنی تمہارا اس سے نکاح کرتا ہوں۔ تم اسے قرآن سکھا دینا۔‘‘[1]
Flag Counter