Maktaba Wahhabi

217 - 382
کیا ولی یا وارثان نابالغہ کا نکاح قائم رکھنے یا فسخ کرنے کا حق رکھتے ہیں؟ سوال : عرض ہے کہ ایک لڑکی جس کی عمر پانچ چھ سال ہے۔ اس لڑکی کے والد نے اس کا نکاح حقِ ولایت استعمال کرتے ہوئے کر دیا۔ مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد حالات ایسے پیدا ہوئے کہ ولی اور وارثان نکاح ختم کرانے کے لیے مجبور ہو گئے۔ لڑکی کی رخصتی بھی نہ ہوئی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ لڑکی تو فی الحال نا بالغ ہے وہ نکاح کو قائم رکھنے یا فسخ کرنے کا شعور نہیں رکھتی۔ ان حالات میں اس کا ولی و دیگر جائز وارثان اس نکاح کو فسخ کرنے کے عند اﷲ مجاز ہیں؟ یالڑکی کے بلوغ کا انتظار کرنا پڑے گا؟ (محمد اسلم سولپوری ایڈ و وکیٹ۔ جام پور) (۱۱ جولائی ۱۹۹۷ء) جواب : جس طرح ولی نا بالغہ بچی کا نکاح کر سکتا ہے۔ اسی طرح بوقتِ ضرورت اسے تفریق کا بھی اختیار ہے۔ کیونکہ نا بالغہ کے جملہ معاملات کا مخاطب شرعاً ولی ہے۔ اس وجہ سے قبل از بلوغت شوہر کی طلاقوں کو مؤثر قرار دے کر اس کی عدت تین ماہ مقرر کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’سورۃ الطلاق‘‘ اور عورت عدّتِ وفات گزارنے کی بھی پابند ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ وٹہ سٹہ کے نکاح پرخیارِ بلوغ کا مسئلہ: سوال :ایک بچی کا نکاح وٹہ پر کیا گیا، لیکن اس وقت وہ نابالغ تھی اور رخصتی بھی نہیں ہوئی تھی، لیکن اَب اس بات کو چھ برس گزر چکے ہیں اب وہ لڑکا جس سے نکاح ہوا تھا وہ ہیروئن کا نشہ کرتا ہے اب لڑکی اس کے پاس جانے کے لیے تیار نہیں۔ تو کیا اس کا نکاح ہم کسی اور سے کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ( ایک سائل) (۲۳ اکتوبر ۱۹۹۸ء) جواب :حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیوہ کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کے اِذن کے بغیر نہ کیا جائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا اِذن اس کا کسی طرح ہو گا (کیونکہ وہ شرم سے بولتی نہیں) فرمایا: خاموشی اس کا اِذن(رضامندی) ہے۔ [1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکی بالغہ ہو کر نکاح فسخ کراسکتی ہے کیونکہ نکاح اس کے اِذْن سے ہونا چاہیے اور بچپن میں وہ قابل اِذْن نہیں کہ اس سے اِذْن لیا جائے۔ ضروری ہے کہ بڑی ہو کر وہ اپنا حق لے سکے ۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اس کو فسخ نکاح کا اختیار ہو۔ دوسری قباحت اس میں یہ ہے کہ یہ نکاح وٹہ ہے اور وٹہ حرام ہے۔ حدیث میں ہے:
Flag Counter