Maktaba Wahhabi

216 - 382
دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر تم نے لڑکی ہمارے حوالے نہ کی تو ہم تمہارے خلاف سخت کاروائی کریں گے۔ لہٰذا کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ صادر فرما کر مشکور ہوں۔ (ایک سائل۔ ہولی بہادر شاہ ضلغ جھنگ) (۱۵ اگست ۱۹۹۷ء) جواب : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیوہ کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے۔ اور کنواری کا نکاح اس کے اذن کے بغیر نہ کیا جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا اذن (رضامندی کا اظہار) اس کا کس طرح ہو گا (کیونکہ وہ شرماتی ہے بولتی نہیں) فرمایا: خاموشی اس کا اذن ہے۔ [1] اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکی بالغہ ہو کر نکاح فسخ کرا سکتی ہے۔ کیونکہ نکاح اس کے اذن سے ہونا چاہیے۔ اور بچپن میں قابل نہیں کہ اس سے اذن لیا جائے ضروری ہے کہ وہ بڑی ہو کر اپنا حق لے سکے جس کی صورت یہ ہے کہ اس کو فسخِ نکاح اختیار ہو۔ اور دوسری روایات میں یہ ہے کہ ایک کنواری لڑکی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور ذکر کیا کہ میرا نکاح میرے باپ نے جبراً پڑھ دیا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اختیار دے دیا کہ اپنے نکاح کو فسخ کرے یا قائم رکھے۔ [2] ان روایات کی بناء پر مذکور فی السوال لڑکی بھی عدمِ رضا کی صورت میں حقِ بلوغت استعمال کر کے نکاح ہذا کو رد کر سکتی ہے یاد رہے یہ اختیار عورت کو اس وقت تک حاصل ہے جب تک شوہر سے مقاربت نہ ہو۔ حدیث بریرہ رضی اللہ عنہ میں ہے:’ فَان قُرُبَکِ فَلَا خِیَارَ لَکِ[3] بصورتِ دیگر حق ہذا زائل ہو جاتا ہے۔ خیارِ بلوغت کا مسئلہ: سوال : ایک بچی جس کا نکاح اس کے والد نے تین سال کی عمر میں کر دیا تھا۔ اب وہ بچی جوان ہو گئی ہے اور جس لڑکے سے اس کا نکاح ہوا تھا۔ شرابی اور بدمعاش ہے۔ اب رخصتی پر نہ والدین رضا مند ہیں نہ لڑکی۔(میاں محمد افضل سرائے سدھو خانیوال) (۱۶ مئی ۱۹۹۷ء) جواب : بایں صورت لڑکی کو خیارِ بلوغت حاصل ہے بذریعۂ عدالت یا پنچایت وہ اس کو رد کر سکتے ہیں بالخصوص جب کہ لڑکے کا چال چلن بھی غیر شریفانہ ہے۔
Flag Counter