Maktaba Wahhabi

145 - 382
والوں کو بھی اچھا نہیں سمجھتی۔ ان کے ساتھ روز کا بلاوجہ لڑائی جھگڑا کھڑا کر دیتی ہے۔ اپنے خاوند کو تھپڑ تک مارتی ہے۔ پہلے جس لڑکے کا ذکر کیا ہے وہ اس لڑکی کا رشتے دار نہیں ہے۔ اس طرح کی لڑکی یا عورت کے لیے کیا حکم ہے قرآن و سنت کی روشنی میں؟ اگر کوئی بھائی یا والدین میں سے یا رشتے دار میں سے اسے ختم کر دیتا ہے تو اس کے لیے قرآن کا فیصلہ کیا ہے؟ ذرا وضاحت سے ارشاد فرما دیں۔ عزت کا مسئلہ ہے۔ (ایک سائل) (۳۰ مئی ۱۹۹۷ء) جواب : مذکورہ فی السوال بد کردار لڑکی کی اصلاح کا طریقہ کار یہ ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے اس کو کسی غیر مانوس علاقہ میں رکھا جائے۔ جہاں کوئی پہلے سے واقف کار نہ ہو۔ انسانی طبیعت اور فطرت میں ہے کہ صحبت کی تبدیلی سے غالباً اس کے حالات بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اسی بناء پر اسلام نے زانی مرد اور زانیہ عورت کی دیگر سزا کے علاوہ بطور حد ایک سال کی جلا وطنی رکھی ہے۔ شاید کہ مجلس احباب اور یارانِ صحبت کی تبدیلی سے ان کے حالات بھی درست نہج پر آ جائیں۔ نیز لونڈی کے بارے میں واضح الفاظ میں فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے: انتہائی کوشش کے باوجود اگر وہ زناکاری سے باز نہ آئے تو فرمایا مالک اس کو فروخت کر دے چاہے چند بالوں کے عوض میں کیوں نہ بیچا جائے۔ حالانکہ اسلامی اخوت کا تقاضا ہے جو شئی انسان اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہ دوسرے مومن بھائی کے لیے بھی پسند نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود بیعِ ہذا کو جائز رکھا گیا ہے اس میں حکمت یہی ہے کہ ممکن ہے صحبت کی تبدیلی سے اس کی اخلاقی حالت درست ہو جائے۔ اس نسخۂ نبوی پر عمل کر کے اس کے عزیز و اقارب اور والدین ذہنی اطمینان اور سکون پائیں گے۔ ان شاء اﷲ اور جہاں اس لڑکی کے خاتمہ کا تعلق ہے سو یہ شدید ترین جرم ہے۔ اس سے اجتناب ہر صورت ضروری ہے۔ واضح ہو کہ عورت کے زمانہ جلا وطنی کے دوران ضروری ہے کہ اس کو اپنے شوہر کی رفاقت حاصل ہو۔ کیونکہ امکانی خرابیوں سے بچاؤ کا محفوظ ترین ذریعہ یہی ہے۔ یاد رہے کہ بد کاری کی شرعی سزا اسلامی حکومت ہی دے سکتی ہے۔ عوام کو اس کا اختیار نہیں دیا گیا۔ بے دین اور بداخلاق بیوی جو اپنے خاوند کے حقوق پورے نہ کرتی ہو؟ سوال : ایک آدمی کا اپنی بیوی سے گھریلو جھگڑا چل رہا ہے۔ کہ وہ اپنی اولاد اور بیوی کو ناپسندیدہ کاموں سے روکتا ہے۔ مثلاً نا فرمانی کرنا، ٹی وی دیکھنا، اور فضول خرچی کرنا وغیرہ اس وجہ سے اس کی بیوی اور اولاد اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ نہ بیوی اپنے خاوند کے حقوق پورے کرتی ہے اور نہ ہی اولاد۔ اس وجہ سے وہ آدمی بھی اپنی بیوی کے حقوق پورے نہیں کرتا مثلاً ازدواجی حق۔ اور ناراض رہتا ہے۔ اور اولاد بھی اپنی ماں کا ساتھ دیتی ہے۔ اگر وہ طلاق
Flag Counter