Maktaba Wahhabi

296 - 382
خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً[1] ایک مجلس کی تین طلاقیں: سوال : میرے ایک عزیز محمد یونس نے اپنی بیوی کو غصے کی بناء پر ایک وقت میں تین طلاقیں لکھ دیں کیا وہ دوبارہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کر سکتاہے۔ (محمد سرور، صادق آباد) (۹ جولائی ۱۹۹۹ء) جواب : صورتِ مرقومہ میں راجح مسلک کے مطابق طلاقِ رجعی واقع ہوئی ہے۔ چنانچہ’’صحیح مسلم‘‘میں حدیث ہے: کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً[2] ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ عہد ِ نبویؐ اور عہد ابوبکر اور دو سال خلافتِ عمر میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔‘‘ اور ’’مسند احمد‘‘ وغیرہ میں حدیث ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبد یزید اخو بنی مطلب نے مجلس واحد میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ اس پر وہ سخت غمگین ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تو نے کس طرح طلاق دی؟‘‘ اُس نے عرض کیا میں نے اس کو تین طلاقیں دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مجلس میں؟ اُس نے کہا ہاں! ایک مجلس میں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو ایک ہی ہوئی ہے ، اگر تو چاہے تو اس سے رجوع کرلے۔‘‘ [3] ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں اس نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ’’اعلام الموقعین‘‘ میں فرماتے ہیں امام احمد رحمہ اللہ نے اس اسناد کو ’’صحیح‘‘ کہا اور اس کی تحسین کی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’ فتح الباری‘‘ میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اس حدیث کو احمد اور ابو یعلی نے بیان کیا ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے محمد بن اسحاق کے طریق سے اس کو صحیح کہا ہے۔ (راجع ،بلوغ الامانی للبناء الساعاتی ،ج:۱۷،ص:۷) یہ حدیث مسئلہ ہذا میں نص ہے۔ اس میں تأویل کی گنجائش نہیں۔ جو دیگر روایات میں ہے۔ بنا بریں عدت کے اندر شوہر رجوع کر سکتا ہے۔ اور عدت گزرنے کی صورت میں عقدِ جدید کا بھی جواز ہے۔
Flag Counter