Maktaba Wahhabi

404 - 382
بچے کی حضانت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ سوال : اس وقت میری بھانجی کی عمر تقریباً ڈیڑھ برس ہے اور اس کی والدہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ والدہ کے انتقال کے وقت بچی کی عمر تقریباً ۱۳/ ماہ تھی ۔ بچی یعنی ہماری بھانجی پیدائش کے دن سے ہی اپنی نانی کے گھر پرورش پارہی ہے، اس دوران اُس کا باپ اُسے دیکھنے کے لیے صرف دو یا تین دفعہ آیا ہے وہ بھی پیدائش کے شروع کے دنوں میں، اُس کے بعد دوبارہ اس نے بچی سے ملنے کی کوئی خواہش نہیں کی۔ اب وہ بچی کو حاصل کرنا چاہتا ہے جب کہ بچی کی نانی ابھی زندہ ہے اور صحت مند ہے بچی کے چار ماموں بھی ہیں۔ بچی کا باپ اس کو صرف اس لیے حاصل کرنا چاہتا ہے کہ بچی کے پیچھے اُس کی والدہ جو جائداد چھوڑ گئی ہے وہ بچی کے ذریعے اُس کو مل جائے۔ مہربانی فرما کر ہمیں یہ بتایا جائے کہ بچی کی پرورش کا حق بالغ ہونے تک کس کو ہے؟ اور اُس کی پرورش کا خرچہ کہاں سے لیا جائے یا کس کو ادا کرنا چاہیے؟ (سائل)(۲۵ مئی ۲۰۰۷ء) جواب : بچے کی حضانت (تربیت) کی سب سے زیادہ حق دار یا ذمہ دار ماں ہوتی ہے، اگر وہ موجود نہ ہو اس کے بعد نانی حق دار ہوا کرتی ہے، اگر وہ بھی نہیں تو خالہ۔ اس لیے کہ نانی ماں سمجھی جاتی ہے اور خالہ ماں کے مرتبے میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلْخَاَلۃُ بِمَنْزِلَۃِ الْأُمِّ )) [1] اگر یہ رشتے دار نہیں ہیں تو پھر دادی تربیت کرے گی، وہ بھی نہیں تو بہن اور اگر یہ بھی نہیں ہے تو پھوپی اور اگر پھوپھی بھی نہیں ہے تو بچے کی بھتیجی۔ اگر ان میں سے بھی کوئی تربیت کے لیے موجود نہ ہو تو بچے کی حضانت باپ کی طرف منتقل ہوگی۔ موجودہ صورت میں چوں کہ بچی کی نانی موجود ہے لہٰذا تربیت کی وہی حق دار ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ’’المسوّٰی‘‘ میں فرماتے ہیں: (( فَالأُمُّ وَ أُمُّ الْأَمِّ أَوْلٰی بِالْحِضَانَۃِ مِنَ الْأَبِ ۔)) ’’بچے کی تربیت کی ماں اور اور نانی زیادہ حق دار ہے۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قصہ سے استدلال کیا ہے کہ انھوں نے ایک انصاری عورت کو طلاق دی تو اس سے عاصم بن عمر تَوَلُّد ہوئے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس کو لینا چاہا تو نانی رکاوٹ بن گئی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ماں کے حق میں فیصلہ صادر
Flag Counter