Maktaba Wahhabi

403 - 382
جواب : ہاں عورت اپنے شوہر کے والدین کو امی ابوکہہ سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمن کے بارے میں فرمایا تھا: ’اُمِّی بَعْدَ اُمِّیْ‘[1] ’’میری ماں کے بعد میری ماں یہ ہے۔‘‘ اور دوسری روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام ایمن کو ’یَا امّہ‘ ’’اے ماں ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔[2] اس سے معلوم ہوا حقیقی ماں کے علاوہ پر بھی امی کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کو ’’سورۃ الاحزاب‘‘ کے شروع میں مومنوں کی مائیں قرار دیا ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے ’’شرح بخاری‘‘ میں فرمایا ہے کہ علماء کا ایک قول یہ ہے کہ شفقت و رحمت کے اعتبار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو باپ کہا جا سکتا ہے ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان سے بھی زیادہ رحیم و شفیق ہیں۔ نصِّ حدیث ہے: (( حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ …الخ)) [3] قرآن کے پہلے پارے کے اخیر میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اولادِ یعقوب علیہ السلام کا باپ قرار دیاگیا ہے۔ جب کہ فی الواقع وہ چچا تھے۔ س:۹۔ اگر کسی فتنہ کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو فتنہ کے ختم ہونے تک قریبی عزیز سے قطع تعلق کرسکتے ہیں؟ (ضیاء الدین احمد۔ رحمانپورہ۔ لاہور) (۲۰ اکتوبر ۲۰۰۰ء) جواب : حتی المقدور تعلق قائم رکھنے کی سعی کرنی چاہیے۔ ممکنہ حد تک قطع رحمی سے بچنا چاہیے۔ کفالت کی غرض سے بچے کس کے پاس رہیں؟ سوال :اسلامی معاشرہ میں غیر اسلامی قانون کے تحت والدہ بچوں کو والدکی رضا مندی کے ساتھ اپنے ساتھ رکھنے کا حق رکھتی ہے؟ اگر رکھتی ہے تو بچوں کا والد بچوں کے اخراجات ادا کرنے کا ذمہ دار ہے؟ اگر ذمہ دار ہے تو بچوں کی کس عمر تک؟ خاص طور پر جب والدہ ماضی میں ذہنی مریضہ رہ چکی ہو اور کچھ عرصہ قبل تک مرض مختلف اوقات میں ظاہر ہوتا رہا ہو۔ بلکہ اب تک زیر علاج ہو۔(ایک سائل) (۷ جولائی ۱۹۹۵ء) جواب :اصلاً زوجین میں سے بچہ اس کو دینا چاہیے جو اس کے لیے نفع بخش ہو یا پھر قرعہ یا بچہ کو اختیار دیا ہے، ناراضگی کی صورت میں والد بچوں کے نفقہ کا ذمہ دار نہیں جس طرح نافرمان بیوی بھی خود اپنے لیے نفقہ کا مطالبہ نہیں کرسکتی چہ جائیکہ بایں حالت اولاد کے لیے مطالبہ کرے۔
Flag Counter