Maktaba Wahhabi

148 - 382
حرمتِ رضاعت اور اس سے متعلقہ مسائل کیا مرد کی طرف سے بھی رضاعت کا اعتبار ہے ؟ سوال : ایک شخص ہیبت کی دو بیویاں ہیں۔ پہلی بیوی میں سے ایک بیٹی۔ اس کے پانچ بیٹے ہیں۔ ان میں ایک بیٹے سہراب کا ایک بیٹا دیدار نامی ہے۔ دیدار نے ہیبت کی دوسری بیوی کی چھاتی سے دودھ پیا ہے۔ اب دیدار سہراب کے دوسرے بھائیوں کی بیٹیوں سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟ ہیبت زوجہ نمبر:۱ زوجہ نمبر:۲ رحیم بخش۔ محبت۔سہراب۔مالک بخش۔بشیر بیٹا۔بیٹا۔بیٹا۔بیٹی۔بیٹی۔بیٹی دیدار۔ ( سہراب کے بیٹے دیدار کو زوجہ نمبر ۲ نے اپنی چھاتی سے دودھ پلایا ہے۔) کیا دیدار کا نکاح اس کے سگے چچاؤں محبت، رحیم بخش، مالک بخش، بشیر کی اولاد سے ہو سکتا ہے کہ نہیں؟ قرآن و حدیث سے وضاحت فرمائیں؟ جواب : مذکور فی السوال صورت میں دیدار کا نکاح چچاؤں کی اولاد سے نہیں ہو سکتا کیوں کہ راجح مسلک کے مطابق لبن الفحل محرم ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا سے مروی ہے کہ افلح جو ان کے رضاعی باپ ابو القیس کا بھائی تھا، ان سے ملنے کے لیے آیا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا نے فرمایا: مجھے ابو القیس نے تو دودھ نہیں پلایا بلکہ اس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ میں جب تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت نہ کر لوں میں افلح کو اندر آنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تیرا چچا ہے اس کو اجازت دے دے۔ [1] اس حدیث سے معلوم کہ حدیث حکمِ رضاعت خاوند کی طرف بھی منتقل ہو جاتا ہے۔ ’’المغنی‘‘ ابن قدامہ میں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے سوال ہوا کہ ایک شخص کی دو لونڈیاں ہیں۔ ایک لونڈی نے ایک لڑکی کو دودھ پلایا اور دوسری نے لڑکے کو تو ان کے نکاح کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: منع ہے۔ کیونکہ دودھ ایک شخص کا ہے۔ ترمذی نے کہا ہے۔ لبن الفحل مرد کی طرف سے دودھ کے اعتبار کرنے کا یہی مطلب ہے۔[2]
Flag Counter