Maktaba Wahhabi

191 - 382
ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برادریوں کے چکر سے بالاتر ہو کر نکاح کیے جو اسلام کی سربلندی کے لیے عظیم حصار ثابت ہوئے۔ نکاحِ شغار کا مسئلہ: سوال :مختلف احادیث سے نکاحِ شغار کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور اس کی ممانعت کی بنیادی علت مہر کا نہ ہونا ہے اگر نکاحِ شغار میں مہر کی ادائیگی دونوں اطراف سے کردی جائے تو پھر کیا ایسا نکاح کرنا جائز و مباح ہو گا؟ (محمد آصف احسان، فیصل آباد) (۲۳ اکتوبر۱۹۹۸ء) جواب :درمیان میں مہر ہو یا نہ ہو ہر دو صورت میں نکاح وٹہ سٹہ حرام ہے۔ درمیان میں مہر نہ ہونے کی قید واقعاتی ہے۔ اعتباری نہیں پھر یہ راوی کی تشریح ہے۔ مرفوع متصل ثابت نہیں اور جس حدیث میں شغار کی تعریف متصل ہے۔ اس میں یہ قید نہیں اور وہ روایت جو’’صحیح مسلم‘‘میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے۔[1] ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں ہے۔ درمیان میں مہر کے باوجود حضرت امیر معاویہ نے وٹہ سٹہ کے نکاح کی تفریق کرادی تھی۔[2] برادری کے دباؤ اور قطع تعلقی کے پیش نظر نکاحِ شغار کا مسئلہ : سوال :میری منگنی میرے چچا کی بیٹی سے ہوئی۔ مگر بعد میں چچا اور اس کے اہل خانہ کے دباؤ پر یہ منگنی ختم کرکے میری ایک بہن کی منگنی چچا کے بیٹے سے کردی گئی۔ اب حال ہی میں راقم کی بہن(مذکورہ) اور چچا کی ایک بیٹی مختلف دینی اداروں سے تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئے ہیں تو چچا نے میرے والد صاحب سے کہا ہے کہ ’’ہم تمہاری بیٹی کا رشتہ اس صورت میں لیں گے کہ تم ہماری بیٹی کا رشتہ لو۔‘‘ برادری کے دباؤ اور قطع تعلقی کے پیش نظر ہمارے والد صاحب آمادہ ہو گئے ہیں۔ ۱۔کیا میرے چچا کی شرط درست ہے؟ اور دونوں طرف سے رشتہ ہو سکتا ہے ؟ ۲۔برادری کے دباؤ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ ۳۔رشتہ کرنے سے انکار قطع رحمی تو نہیں ؟ ۴۔کیا اس رشتے سے میرا ذاتی انکار والد صاحب کی نافرمانی تو نہیں؟ ( محمد احمد شریف،اوکاڑہ) (۵ نومبر ۱۹۹۹ء) جواب :(۱)سوال میں مشارٌ الیہ نکاح، وٹہ سٹہ کی صورت ہے اور یہ حرام ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ شغار کی تعریف میں رقمطراز ہیں: ’’ ایک شخص اپنی متعلقہ عورت کا دوسرے شخص کو نکاح اس شرط پر دے کہ وہ بھی اپنی متعلقہ کا نکاح دے
Flag Counter