Maktaba Wahhabi

190 - 382
اس کی اصلاح کریں پھر دوسرے عقد کے باے میں کوئی وجہ فساد و نزاع باقی نہیں رہتی۔ جس سے رشتہ لیا ہے بعد میں بلا شرط اس کو رشتہ دینے کا حکم: سوال :دو بھائی ہیں۔ ان میں سے بڑے بھائی نے اپنے بیٹے کے لیے اپنے بھائی سے رشتہ لیا ہے۔ پانچ چھ سال گزرنے کے بعد اب دوسرا بھائی جس سے رشتہ لیا گیا ہے، مطالبہ کرتا ہے کہ اب مجھے رشتہ دیا جائے جب کہ یہ شرط پہلے نہیں تھی۔ اب جو بڑا بھائی ہے وہ رشتہ دینے پر رضا مند نہیں ہے۔ اگر اس صورت میں نکاح ہوجائے تو وہ کس ضمن میں آئے گا۔ (سائل: حاجی عبداللہ ڈھنگ شاہ،قصور) (۳۰ اکتوبر۱۹۹۲ء) جواب :صورتِ مسئولہ میں بلا سابقہ شرط رشتہ طے پانے میں کوئی حرج نہیں۔ جائز ہے اور اگر بڑا بھائی کسی وجہ سے رشتہ دینے پر رضا مند نہ ہو تو اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ فریقین کی باہمی رضا و رغبت سے جو بہتر صورت نظر آئے اسے اختیار کر لیا جائے۔ (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ بالصَّوَابِ وَ عِلْمُہُ اَتَمُّ۔) وٹہ سٹہ کا نکاح : سوال :مجھے تقریباً ایک سال ہوا ہے کہ میں نے مسلک حقہ اہل حدیث قبول کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور حضرت مولانا محمد یٰسین راہی کی خصوصی کوششوں سے ہوا۔ جب ہم حنفی تھے۔ اس وقت ہم نے طے کیا کہ میں دوسرے رشتہ دار سے رشتہ لوں گا بھی اور دوں گا بھی۔یعنی وَٹہ سٹہ ہو گا۔ اب اہل حدیث ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ وٹہ سٹہ غلط ہے۔ اگر رشتہ نہ ہوا تو پورے خاندان میں اختلاف ہو جائے گا۔ میرے بچے لڑکا لڑکی اہل حدیث ہو چکے ہیں اب کیا کیا جائے؟(سائل) (۲۳ جنوری ۱۹۹۸ء) جواب :وٹہ سٹہ کا نکاح واقعی اسلام میں حرام ہے۔ درمیان میں حق مہر مقرر ہو نہ ہو، ہر دو صورت میں ناجائز ہے۔’’صحیح مسلم‘‘میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت اس امر کی واضح دلیل ہے۔[1] اور سنن ابو داؤد میں موجود ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تقرر مہر کے باوجود تفریق کرادی تھی۔ [2] شیخ ابن باز مفتی اعظم سعودی عرب اور محدث روپڑی رحمہ اللہ کی باقاعدہ موضوع ہذ ا پر تصانیف موجود ہیں۔ جو لائق مطالعہ ہیں۔ اس موضوع پر میرا بھی ایک تفصیلی مضمون ماہنامہ محدث میں شائع شدہ ہے۔ باقی رہا رشتوں کا معاملہ تو اہل دین کا فرض ہے کہ قطع نظر برادریوں کے جاہلی رسوم کو مٹا کر آپس میں رشتۂ ازواج میں منسلک ہوں تاکہ دینی تعلقات مزید مضبوط ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ہمارے لیے عظیم نمونہ
Flag Counter