Maktaba Wahhabi

140 - 382
معاشرے میں کم ہی نظر آیا ہے کہ ایسی عورتوں سے کبھی کسی نے شادی نہ کی ہو۔ توبہ صادقہ کی صورت میں جب شریعت نے اس کو عزت دی ہے تو اسلامی معاشرے میں بھی اس کو اور اس کے والدین کو عزت ملنی چاہیے۔ خود سری کا کوئی علاج نہیں۔ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ اِلَی الصَّوَاب اولادِ زنا زانی سے بے تعلق ہوتی ہے: سوال : ایک نوجوان نے جو کہ شادی شدہ ہے اپنا گھر بار بچے وغیرہ ہیں۔ دوسری کسی عورت سے مراسم پیدا کرلیے(جو کہ بغیر نکاح کے کسی اور مرد کے ساتھ رہتی ہے) اور اس میں سے اس کی دو عدد بچیاں بھی ہوگئیں مگر اس چیز کا علم اس نوجوان کی اپنی اصل بیوی اور بچے کو نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس چیز(دو بچیوں) کا علم دوسرے مرد کوہے کہ یہ دونوں لڑکیاں جو میرے پاس رہتی ہیں کسی اور مرد کی ہیں۔ مگر یہ نوجوان اب بھی اپنی دوست لڑکی کو ملتا ہے جو کہ ابھی تک اسی مرد کے ساتھ رہتی ہے۔ وہ مرد ان کو اپنی اولاد تصور کرتا ہے اور یہ نوجوان اپنی اولاد تصور کرتا ہے کیا۔ ۱۔یہ بچیاں حلال ہیں یا حرام۔ اگر حرام ہیں تو حلال کیسے ہو سکتی ہیں۔ اگر حرام ہیں توان بچیوں کا کیا قصور ہے؟ ۲۔اس نوجوان کی اپنی اس سہیلی سے شادی ہو سکتی ہے؟(جو کہ اہل کتاب ہے) ۳۔اسلامی قانون کے تحت اس نوجوان کی کیا سزا ہے؟اس کی سہیلی کی کیا سزا ہے؟ اور ان دو بچیوں کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ ۴۔ اسلام میں جہاں سزا کا تعلق ہے وہاں معافی بھی ہے اس جرم کی معافی کیسے ہو سکتی ہے؟ بچیاں کیسے حلال ہوسکتی ہیں؟ یا یہ کہ دونوں بچیوں کو یہ نوجوان بھول جائے اور اولاد تصور نہ کرے؟ جواب تفصیل سے لکھیں تاکہ امریکہ یورپ میں رہنے والوں کی رہنمائی ہو سکے۔ جہاں قرآن اور حدیث (عربی) لکھیں،اردو ترجمہ ضرور دیں تاکہ بات سمجھ میں آسکے۔ (امجد علی خان، سمن آباد۔لاہور) (۸ دسمبر۱۹۹۵ء) جواب : (۱) سوال میں مذکور دونوں بچیاں چونکہ نطفہ حرام ہیں۔ اس لیے ان کے حلال بننے کی کوئی صورت نہیں۔ واقعی ان بچیوں کا تو کوئی قصور نہیں، قصور سب زانی کا ہے یا پھر مزنیہ کا ہے لیکن چونکہ یہ حرام ملاپ کا نتیجہ ہیں۔ اس لیے اولاد الزنا ہیں جس کی بناء پر ان کی نسب اور میراث جہت والد شرعاً مفقود ہے ہاں البتہ نیکی کی صورت میں ان کے اعمال کا اعتبار اور شمار ہے مثلاً ولد الزنا اہلیت کی بناء پر امامت کراسکتا ہے۔ حدیث میں ہے: ((یَؤُمُّہُمْ أَقْرَؤُہُمْ لِکِتَابِ اللّٰهِ ۔))[1] اس حدیث سے ولد الزنا کی صحتِ امامت پر استدلال کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter