Maktaba Wahhabi

139 - 382
((فَاِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبٍ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ)) [1] یعنی ’’بندہ جب گناہ کا اقرار کرکے تائب ہوتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔‘‘ نکاح چونکہ استبراء رحم (عدت پوری ہونے کے بعد) کے بعد ہوا ہے لہٰذا بچہ بھی زید کی طرف منسوب ہو گا۔ اور حلال کا ٹھہرے گا۔ھٰذا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَ عِلْمُہُ اَتَمُّ۔ زنا بالجبرکے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کے مسائل: سوال : (سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رہے کہ اس وقت اسلامی حکومت نہیں ہے) ایک لڑکی جو جماعت نہم کی طالب تھی، اُس کو کچھ لوگ زبردستی اِغوا کرتے ہیں، اور اُس کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد اُس کو چھوڑ جاتے ہیں۔ اغوا ہونے والی لڑکی کے والدین اپنی عزت کی وجہ سے کسی کے آگے ذکر نہیں کرتے اور نہ وہ لڑکی اُن کو کچھ بتاتی ہے۔ کچھ ماہ بعد پتہ چلتا ہے کہ لڑکی حاملہ ہے۔ کیا اس بے گناہ لڑکی کا حمل ضائع کیا جا سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو پیدا ہونے والے بچے کا وارث کون ہوگا؟ کفالت کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ بچے کی پیدائش کے بعد اس لڑکی سے شادی کون کرے گا؟ کیا پھر معاشرے میں اس کی عزت ہو گی؟ اُس کے والدین کی عزت ہو گی۔ (عطا محمد جنجوعہ) (۲۷ / اگست ۲۰۰۴ء) جواب : اندریں حالات لڑکی واقعی بے قصور ہے لیکن حمل کی صورت میں معصوم جان کا کیا قصور ہے جس کو ضائع کیا جا رہا ہے ؟ خطرہ ہے کہ اس فعل کا مرتکب کہیں قرآنی وعید کی زد میں نہ آجائے۔ ﴿وَاِذَا الْمَوْئُ وْدَۃُ سُئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ﴾ (التکویر: ۸،۹) ’’اور جب اس لڑکی سے جو زندہ دفن کردی گئی ہو پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی۔ ‘‘ جنم لینے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا، اس کے تعلق دار ماں کے رشتہ دار ہوں گے اور کفالت کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر ہو گی۔ عوت جب توبہ تائب ہو جاتی ہے تو شریعت کی نگاہ میں وہ طاہرہ ہے، شرعاً اس سے شادی کرنا جائز ہے، حدیث میں ہے: (( اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ))[2] مگر یہ عورت یا لڑکی تو سرے سے گناہ گار ہی نہیں، کیوں کہ اُسے اغوا کرکے اُس کے ساتھ جبراً بد فعلی کی گئی، لہٰذا اس کا معاملہ بالارادہ گناہ کرنے والے جیسا نہیں ہوگا۔
Flag Counter