Maktaba Wahhabi

276 - 382
’’یعنی اور ان کے خاوند اگر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ صورتِ مسئولہ میں عدت چونکہ وضع حمل ہے قرآن مجید میں ہے: ﴿وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ﴾ (الطلاق:۴) ’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل( یعنی بچہ جننے) تک ہے۔‘‘ لہٰذا شوہر وضع حمل سے قبل رجوع کر سکتا ہے۔ البتہ مستحب یہ ہے کہ رجوع پر دو عادل گواہ مقرر کر لیے جائیں۔ چنانچہ قرآنِ مجیدمیں ہے: ﴿وَّاَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ﴾ (الطلاق:۲) ’’ اور اپنے میں سے دو منصف مردوں کو گواہ کرلو۔‘‘ اور عدت گزرنے کی صورت میں عقد جدید بھی ہو سکتا ہے۔ حالت ِحمل میں بیک وقت تین طلاق کا حکم: سوال : عرض یہ ہے کہ میرے عزیز نے بیوی سے جھگڑنے پر اُس کو غصے میں بیک وقت تین دفعہ طلاق کہا ہے او ربیوی کو تقریباً ۳ یا ۴ ماہ کا حمل بھی ہے۔ کیا آپ کی نظر میں طلاق ہو گئی ہے یا نہیں ہوئی؟ (ایک سائل) (۸ مئی ۱۹۹۸ء) جواب : صورتِ مرقومہ میں طلاق رجعی واقع ہوئی ہے۔’’صحیح مسلم‘‘میں حدیث ہے: کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً[1] ’’عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد ابوبکر اور دو سال خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی۔‘‘ ’’مسند احمد‘‘ وغیرہ میں ہے کہ رُکانہ بن عبد یزید اخوبنی مطلب نے مجلس واحد میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ اس پر وہ سخت غمگین ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا تو نے کیسے طلاق دی۔ اس نے کہا میں نے اس کو تین طلاق دیں۔ آپ نے فرمایا: ایک مجلس میں۔ اُس نے کہا ہاں ایک مجلس میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوائے اس کے نہیں کہ یہ ایک ہے۔ اگر تو چاہے تو اس سے رجوع کرلے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں اُس نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔[2] علامہ ابن قیم ’’اعلام الموقعین‘‘ میں حدیث ہذا کے بارے میں فرماتے ہیں:
Flag Counter