Maktaba Wahhabi

267 - 382
طلاق دینے کی نوبت پیش آگئی تو دوسری طلاق دے فرمانِ الٰہی ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ﴾ (البقرۃ:۲۲۹) سے یہ مراد ہے۔ ’’طلاقیں کب واقع نہیں ہوتیں؟‘‘ (ایک مضمون پر تعاقب) سوال :’’پندرہ روزہ صحیفہ اہل حدیث‘‘ (کے شمارہ نمبر ۲۳، جلد نمبر ۸۷، بتاریخ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۵ء) میں ایک مضمون بعنوان ’’طلاقیں کب واقع نہیں ہوتیں؟‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ مندرجہ ذیل صورتوں میں بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ حیض کی حالت میں، نفاس کی حالت میں، طہرِ مباشرت میں، غصے کی حالت میں، فون، ڈاک، پیغام اور انٹرنیٹ کے ذریعے دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ آپ صورتِ مسئلہ کی وضاحت فرما دیں کہ کیا واقعی ان حالات میں طلاق واقع نہیں ہوتی؟ (حامد رحمن، وزیر آباد) (۲۱ اپریل ۲۰۰۶ء) جواب : طلاق کی دو قسمیں ہیں: 1 طلاق سنی، 2 طلاقِ بدعی۔ طلاقِ سنی: یہ ہے کہ اس طہر میں ایک طلاق دے جس میں ہم بستری نہ کی ہو، لہٰذا جب مسلمان اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو حیض کے بعد طہر میں ایک طلاق دے، اگر اس طہر میں جماع نہیں کر چکا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ ﴾ ’’اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو۔‘‘ طلاق بدعی: یہ ہے کہ حیض یا نفاس میں یا اس طہر میں طلاق دے جس میں ہم بستری کر چکا ہو۔ یہ بدعی اور ناجائز اندازِ طلاق کی صورتیں ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اس طلاق سے رجوع کا حکم دیا تھا جو انھوں نے اپنی بیوی کو ایامِ حیض میں دی تھی، اور مزید فرمایا کہ ’’انتظار کرو یہاں تک کہ طہر کے بعد حیض آئے اور پھر پاک ہو تو پھر چاہو تو طلاق دے دو یا اپنے پاس رکھو۔‘‘ اور اسی موقعے پر فرمایا: فَتِلْـکَ الْعِـدَّۃُ الَّـتِیْ أَمَرَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ أَنْ یُّطَلَّقَ لَہَا النِّسَآء[1] ’’یہی وہ عدت ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا (یعنی سورۃ الطلاق میں)۔‘‘ حیض ونفاس کی طلاق: جمہور علماء کے نزدیک طلاق مسنون کی طرح طلاق بدعی بھی واقع ہو جاتی ہے، سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: بَابٌ إِذَا طُلِّقَتِ الْحَائِضُ تُعْتَدُّ بِذٰلِکَ الطَّلَاقُ ۔
Flag Counter