Maktaba Wahhabi

241 - 382
﴿وَ اٰتَیْتُمْ اِحْدَاہُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا﴾ (النساء:۳۰) ’’اگر تم انھیں ڈھیروں مال بھی دے دو تو واپس لینا تمہارے لیے حلال نہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:’’ ایک عورت نے عمر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیااور وہ عمر پر سبقت لے گئی۔‘‘[1] ٭ کم از کم مقدار کی روایات کی استنادی حیثیت: مہر کی کم از کم مقدار کے بارہ میں دارقطنی وغیرہ کتب میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایات ہیں۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ سے موقوف روایات بھی مروی ہیں۔ لیکن ان سب کی سندوں پر کلام ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے التعلیق المغنی علی سنن الدارقطنی:۳/۲۴۵) ٭ حق مہر ضرور ادا کرنا چاہیے: چونکہ مرد نکاح کرتے وقت حق مہر کی ادائیگی کا اقرار کرتا ہے۔ اس لیے جو مقدار مقرر کی جائے لازماً ادا کرنی چاہیے۔ حق مہر کا ادا نہ کرنا یا جبراً معاف کرانا درست نہیں۔ (( عَنْ زَیْدِ بْنِ اَسْلَمَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مَا مِنْ رَجُلٍ یَّنْکِحُ اِمْرَأَۃً بِصَدَاقٍ وَ لَیْسَ فِیْ نَفْسِہٖ أَنْ یُّؤَدِّیَہٗ اِلَیْہَا اِلَّا کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ زَانِیًا وَ مَا مِنْ رَجُلٍ یَّسْتَرِیَ مِنْ رَجُلٍ بَیْعًا وَّ لَیْسَ فِیْ نَفْسِہٖ اَنْ یُّؤَدِّیَہٗ اِلَیْہِ اِلَّا کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ خَائِنًا)) [2] کہ جو شخص نکاح کرے اور حق مہر ادا کرنے کی نیت نہیں تو وہ اللہ کے ہاں زانی شمار ہوتا ہے ۔ اسی طرح جو شخص کسی سے کوئی چیز خریدے اور اس کے دل میں قیمت ادا کرنے کا ارادہ نہیں ، وہ اللہ کے ہاں خائن شمار ہو تا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے معاشرہ میں حق مہر ادا نہ کرنے کی جو برُی رسم ہے ، وہ اللہ کے ہاں انتہائی بُری اور مذموم ہے۔ اس سے اجتناب لازم ہے۔ خلاصہ یہ کہ شرعی طورپر مہر کی کم از کم یا زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی تعیین نہیں۔ ہر شخص اپنے حسب حال جو مقدار اسانی سے ادا کر سکے مقرر کر لے۔ ہاں جو متعین اور مقرر کرے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن عمل کی توفیق سے نوازے۔ آمین۔ (ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَ عِلْمُہُ اَتَمُّ۔) ’’سورۂ نساء‘‘ کی آیت میں آمدہ لفظ ’’قِنْطَار‘‘ سے کیا مراد ہے؟ سوال : شریعت مطہرہ کی روشنی میں واضح فرمایا جائے کہ کیا ’’اصحاب الفروض‘‘ کے لیے وصیت کرنا جائز ہے؟ اگر
Flag Counter