Maktaba Wahhabi

153 - 382
یہ روایت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ رضاعت کا حکم خاوند کی طرف بھی منتقل ہوتا ہے۔ دو رضاعی بھائیوں میں سے ایک اپنی بیٹی کا نکاح دوسرے سے کرنا چاہتا ہے: سوال : دو بچوں نے ایک ساتھ ایک عورت کادودھ پیا ہے اور دودھ دو ایک بار نہیں بلکہ تقریباً ۶ ماہ اکٹھے پیا ہے۔ اب وہ دونوں ادھیڑ عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک آدمی دوسرے کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینا چاہتا ہے، کیا جائز ہے یا نہیں۔ خیال ہے جائز نہیں ہوگا۔اس پر دو تین دلیلیں چاہئیں۔(سیدعبداللہ شاہ) (۹ دسمبر ۱۹۹۴ء) جواب : ایک عورت کادودھ پینے والے دو آدمی آپس میں رضاعی بھائی قرار پاتے ہیں دونوں میں سے ایک کی بچی کا نکاح دوسرے سے ناجائز ہے کیونکہ وہ اس بچی کا رضاعی چچا بنتا ہے۔ مشکوٰۃ میں حدیث ہے: (( عَنْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ: یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ الوِلاَدَۃِ۔)) [1] یعنی ’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شئے ولادت سے حرام ہوتی ہے وہی رضاعت سے بھی حرام ہوتی ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رضاعت سے وہ تمام تعلقات اور رشتے حرام ہوں گے جو ولادت سے حرام ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً ولادت میں ایک عورت کی اولاد سب آپس میں بہن بھائی ہوتے ہیں۔ ٹھیک اس طرح جس لڑکے یا لڑکی نے کسی عورت کا دودھ پیا ہے وہ گویا اس عورت کی اولاد ہوگئی۔ تو اب اس عورت کے کسی لڑکے یا لڑکی سے اس کا رشتہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح جن دو نے کسی عورت کا دودھ پیا خواہ ایک وقت پیا یا الگ الگ اور الگ الگ کی صورت میں دونوں کے درمیان خواہ تھوڑا وقت ہو یا کئی سالوں کا ان سب صورتوں میں ان کا رشتہ آپس میں اور اس عورت کی باقی اولاد کے ساتھ کرنا درست نہیں ہوگا۔ بلکہ اس عورت کا خاوند دودھ پینے والے بچوں کا باپ اور خاوند کابھائی چچا ہو گا ۔ اس طرح باقی تعلقات خالہ ماموں والے ثابت ہوجائیں گے کیونکہ رضاعت ولادت کے قائم مقام ہے۔(فتاویٰ اہل حدیث:۳/۱۷۶) دوسری روایت میں ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کیا آپ کو اپنے چچا حمزہ کی بیٹی میں نکاح کی رغبت ہے؟ وہ قریش میں نہایت خوبصورت لڑکی ہے، فرمایا : تجھے معلوم نہیں کہ حمزہ میرا رضاعی بھائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو رشتہ نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے وہ رضاعت سے بھی حرام کیا ہے۔[2]
Flag Counter