Maktaba Wahhabi

151 - 382
’’مسند احمد‘‘ میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوحذیفہ کی بیوی کو کہا کہ سالم کودودھ پلادے، اس نے سالم کو پانچ دفعہ دودھ پلادیا اس سے وہ اس کے ہاں داخل ہونے لگا۔ نیز واضح ہو کہ ’’دفعہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ بچہ پستان منہ میں لے کر چوسے پھر اپنے اختیار سے بغیر کسی عارضے کے چھوڑ دے تو یہ ایک ’’رضعہ‘‘ (دفعہ) ہوا۔اس طرح بچہ عورت کا دودھ پانچ دفعہ پیے تو پھر حرمت ثابت ہوتی ہے۔ بالا صورت میں چونکہ عدد رضاعت مکمل نہیں، اس لیے حرمت بھی نہیں ہوگی، لہٰذا خالہ زاد بچے اور بچی کا آپس میں نکاح ہو سکتا ہے۔ رضاعی بہن سے شادی کا حکم: سوال :فہیم کی شادی لطیفہ سے ہو گئی اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ دونوں آپس میں رضاعی بھائی بہن ہیں۔ تو اس کی کیا صورت ہوگی؟ کیا ان دونوں پر قیامت کے دن عذاب بھی ہو گا؟ (محمد رضا ء اللہ عبداللہ نیپالی) (یکم جولائی ۱۹۹۴ء) جواب :خاوند اور بیوی کے بارے میں جب بھی معلوم ہو جائے کہ یہ رضاعی بہن بھائی ہیں تو ان میں فوراً جدائی کرادی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیاہ فام عورت کی شہادت پر خاوند اور بیوی میں جدائی کرادی تھی کہ اس نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے ملاحظہ ہو :(صحیح البخاری، باب شہادۃ المرضعۃ اور باب تفسیر المشبہات) کیا رضاعی نواسی اور حقیقی بھانجی کا نکاح ہو سکتا ہے ؟ سوال : ’’س‘‘ اور ’’م‘‘ سگی بہنیں ہیں۔ والدہ کی بیماری کے دوران ’’س‘‘ نے ’’م‘‘ کو دودھ پلایا۔ ’’س‘‘ اور ’’م‘‘ کی اولاد کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا۔ سوال یہ ہے کہ ’’س‘‘ کی اولاد کا ’’م‘‘ کی اولاد سے نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں؟ (ایک سائل) (۱۷ مارچ ۲۰۰۰) جواب : صورت مسئولہ کی تفصیل اور جواب ملاحظہ فرمائیں۔ س (سمعیہ) خالد(حقیقی بیٹا)رضاعی بہن بھائی (م) مریم ( رضاعی بیٹی اور حقیقی بہن) حامد(پوتا) بھتیجا پھوپھی۔ نکاح؟ … فاطمہ(رضاعی نواسی اور حقیقی بھانجی) حامد، سمعیہ کا حقیقی پوتا اور فاطمہ، سمعیہ کی حقیقی بھانجی ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی رضاعی پھوپھی اور فاطمہ، حامد کی پھوپھی زاد ہے۔ جو نکاح ، نسب میں جائز ہے۔ وہ رضاعت میں بھی جائز ہے۔ لہٰذا دونوں (یعنی ’’س‘‘ کی اولاد) کاباہم نکاح درست ہے۔ رضاعی بھانجی سے شادی شدہ شخص کے بچوں کا حکم: سوال : ایک صاحب کی شادی پندرہ سال قبل ان کی رضاعی بھانجی کے ساتھ ہوئی۔ مسئلے کا علم نہیں تھا۔ اس کے پانچ
Flag Counter