Maktaba Wahhabi

186 - 382
’’ یعنی جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انھیں سے ہے۔‘‘ اہل علم کا فرض ہے کہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس قسم کی خلافِ شرع قباحتوں اور برائیوں سے عامۃ الناس کو آگاہ کریں تاکہ وہ ان کے برے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ بوقت عقد نکاح اگر کسی ایسے شخص سے واسطہ پڑ جائے۔ جو اس فعل کا مرتکب ہو تو اسے بطریقِ احسن سمجھانا چاہیے شاید کہ نصیحت اس کے لیے نفع بخش ثابت ہو۔ اور اگر وہ اپنے فعل قبیح پر بضد ہو اور نکاح نہ پڑھانے سے اس پر اثر ہو سکتا ہو تو نہیں پڑھانا چاہیے۔ بصورتِ دیگر اصلاحِ احوال کی بجائے اُلٹے اثرات کا خدشہ ہو تو چلو کم از کم گانا، سہرا چنی وغیرہ اتروا کر نکاح کردیا جائے اتنا بھی نہ کر سکے تو بہر صورت نکاح منعقد ہو جائے گا اگرچہ فعل ہذا مستحسن نہیں ہے۔ مسلمانوں کی تقریبات میں ہندوؤانہ رسوم کا رواج پانا: سوال :مسلمانوں نے آج کل شادیوں اور دیگر تقریبات میں ہندوؤں کی بہت سی مشرکانہ رسوم اپنا رکھی ہیں۔ مثلاً سالگرہ میں بتیاں جلانا بجھانا۔ کیک کاٹنا۔ امام ضامن اور سہرا باندھنا ۔ تیل چونا ۔ دلہا کو سرخ کپڑے کے سائے میں گھر لانا۔ پھر وہ کپڑا اس کے گلے میں ڈال دینا۔ کالا کپڑا سواری کے ساتھ لٹکا دینا وغیرہ دیگر بہت سی شرکیہ رسومات کی نقل بعض لوگ کر لیتے ہیں۔ ان میں سے شرک و بدعت کی سخت مخالفت کے داعی بھی ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مشرکین تو آفات کو ٹالنے کے لیے ایسا کرتے ہوں گے مگر ہماری نیت قطعاً وہ نہیں ہم تو ایسے ہی رواجاً کر لیتے ہیں۔ غیر قوموں کی رسوم تو یقینا ناجائز ہیں۔ کیا مشرکین کی نقل پر اس شرک کا اطلاق نہیں ہوتا جو اعمال کو ضائع کردیتا ہے۔(ڈاکٹر عبید الرحمن چوہدری۔لاہور) (۲۶ جون ۱۹۹۸ء) جواب : مشرکین کی رسومات کو اختیارکرنے کی سخت ممانعت ہے۔ حدیث میں ہے: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ۔[1] ’’جو کسی قوم کی عادات و خصائل میں مشابہت اختیار کرتا ہے۔وہ انہی سے شمار ہوگا۔‘‘ نیت چاہے جو بھی ہو۔ ’’سنن النسائی‘‘ اور ’’صحیح ابن حبان‘‘ میں بسند صحیح بروایت انس رضی اللہ عنہ وارد ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے تو دو دن ان کی کھیل کود کے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے ان سے بہتر خوشی کے دو دن عید الفطر اور عید الاضحی تمہارے لیے مقرر کردیے ہیں۔ [2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس پر رقمطراز ہیں۔
Flag Counter