Maktaba Wahhabi

109 - 382
جواب تحریر فرمائیں شکریہ۔ (محمد فہیم سرگودھا) (۲۳ جنوری ۱۹۹۸ء) جواب :موجودہ صورت میں پڑھا ہوا نکاح درست ہے۔’’صحیح بخاری‘‘کے ترجمۃ الباب میں ہے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے منگنی کی وہ اس کے انتہائی قریبی تھے۔ ایک آدمی کو حکم دیا ۔ اس نے اس کا نکاح اُس عورت سے کردیا۔ عبدالرحمن بن عوف نے ام حکیم بنت قارظ سے کہا کیا تو اپنا معاملہ میرے سپرد کرتی ہے کہا ہاں تو انھوں نے کہا پھر میں نے تجھ سے نکاح کر لیا۔ اور عطا نے کہا گواہ بنا لینا چاہیے کہ میں نے تجھ سے نکاح کر لیا ہے یا عورت کے کنبہ سے کسی آدمی کو کہے کہ نکاح کردے اور سہل نے کہا ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ میں اپنے نفس کو آپ کے سپرد کرتی ہوں۔ایک آدمی نے کہا ، یا رسول اللہ! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہیں تو مجھ سے نکاح کردیجیے۔ [1] ان آثار و اقوال سے معلوم ہوا کہ نکاح دوسرا شخص کرے یہ بھی درست ہے اور اگر خود ہی کرے ، اس کا بھی جواز ہے۔ البتہ نکاح خفیہ کے بجائے علی الاعلان ہونا چاہیے۔ نکاح کے وقت ولی کا موجود ہونا شرط ہے: سوال : میرا تعلق ضلع نارووال کے ایک گائوں سے ہے۔ میرا چچا مقبول احمد فوت ہوچکا ہے۔ اُس کی اولاد تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ بڑے بیٹے اور ایک بڑی بیٹی کی شادی ہوچکی ہے، باقی اولاد غیر شادی شدہ ہے۔ غیر شادی شدہ دو بیٹیوں کی عمر تقریباً ۱۹ سال اور ۱۷ سال ہے۔ یہ دونوں بیٹیاں (شازیہ، نازیہ) اپنے گائوں کے دو بھائیوں (نسیم اور مطیع) کے ساتھ شیطانی چکر میں مفرور ہوگئیں ہیں۔ فرار کی حالت میں لڑکوں کے باپ نے لاہور کے کسی علاقہ میں نکاح پڑھوا کر پاکستانی عدالت میں پیش کرکے اُس کی تصحیح کروالی ہے۔ اس کے بعد ان دونوں جوڑوں کو کراچی بھیج دیا گیا۔ اب تقریباً دو سال کے بعد یہ دونوں جوڑے گائوں واپس آگئے ہیں۔ ان میں سے ایک جوڑے کے دو بچے ہیں ایک جوڑے کی ایک بچی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نکاح جو پاکستانی عدالت سے تصحیح شدہ ہے، اسلامی نکاح قرار دیا جاسکتا ہے؟ یا کہ مشہور ومعروف حدیث (( لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ))[2] کے تحت یہ نکاح فاسد ہے؟ اگر یہ نکاح درست نہیں ہے تو کیا اس کی تجدید یا تصحیح کی کوئی صورت ہے؟ متاثرہ دونوں خاندان ان جوڑوں کی اصلاح کیسے کریں؟ اگر متاثرہ خاندان اور گائوں والے ان جوڑوں کی
Flag Counter