Maktaba Wahhabi

223 - 382
کیا بلوغت سے پہلے کا نکاح بلوغت کے بعد فسخ کروایا جا سکتا ہے؟ سوال :میں نے اپنی دو بیٹیوں کانکاح بلوغت سے پہلے ہی کردیا تھا۔ کافی کوشش کی ہے کہ بچیاں شادی کرکے لے جائے نہ لے کر جاتا ہے نہ طلاق دیتا ہے۔ آپ شرعی مسئلہ بتائیں کہ تنسیخ نکاح کروں تو کس طرح تاکہ طلاق شرعی ہو جائے۔ تفصیل لکھ بھیجیں، مہربانی ہوگی۔ کافی پریشان ہوں۔(محمد نواز اعوان۔ میانوالی) (۳۰ جولائی ۱۹۹۹ء) جواب :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیوہ کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کے اِذن کے بغیر نہ کیا جائے۔ صحابہ کرام نے عرض کی اس کا اِذن کس طرح ہوگا(وہ تو شرم و حیا کی وجہ سے بولتی نہیں) فرمایا اس کی خاموشی اس کا اِذْن ہے۔ [1] اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکی بالغہ ہو کر نکاح فسخ کراسکتی ہے کیونکہ نکاح اس کے اِذْن سے ہونا چاہیے اور بچپن میں وہ قابلِ اِذْن نہیں کہ اس سے اِذْن لیا جائے۔ ضروری ہے کہ وہ بڑی ہو کر اپنا حق لے سکے، جس کی صورت یہ ہے کہ اس کو فسخ نکاح کااختیار ہو۔ لہٰذا صورتِ بالا میں لڑکی بذریعہ عدالت یا پنچایت اپنا نکاح فسخ کراسکتی ہے۔ بلوغت سے قبل کیا گیا نکاح قائم رکھنا جائز ہے ؟ سوال : (۱) لڑکا: ہاشم علی ولد محمد نواز عمر ۸ سال (۲) لڑکی: منیراں بی بی دختر رستم علی۔ عمر ۱۰ سال اس لڑکے اور لڑکی کا نکاح تقریباً آج سے ۶ماہ قبل ہوا ہے اور تا حال لڑکی کی رخصتی نہیں ہوئی ہے اور یہ نکاح بھی دونوں کے والدین کی مرضی سے ہوا ہے۔ اب جب کہ صورتِ حال بدل چکی ہے کہ لڑکی کے والدین طلاق لے کر فارغ ہونا چاہتے ہیں جب کہ لڑکا اور اس کے والدین اس حق میں نہیں ہیں۔ چونکہ اب دونوں فریقین کے مابین تنازعہ ہو چکا ہے۔ سائل یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ مذکورہ لڑکے اور لڑکی کا نکاح جن عمروں میں کر دیا گیا ہے، قرآن و حدیث کی رو سے ہوا ہے یا نہیں؟ (مظہر علی معرفت محمد علی اسحاق نائب قاصد گورنمنٹ ہائی سکول دیپال پور ٹاؤن۔ ضلع اوکاڑہ) (۱۶ مئی۱۹۹۷ء) جواب : صورتِ مرقومہ میں لڑکے اور لڑکی کا نکاح درست ہے۔ اسلام میں بلوغت سے پہلے پڑھا ہوا نکاح درست قرار پاتا ہے۔ اس کی واضح مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا کا نکاح ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل از بلوغت ان کے والد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ قصہ ہذا صحیح بخاری وغیرہ میں مرقوم ہے۔
Flag Counter