Maktaba Wahhabi

101 - 382
ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کی شرعی حیثیت؟ سوال :ایک شخص پہلے شادی شدہ ہے اور اس کے دو بچے ہیں۔ اس نے ایک کنواری لڑکی کو ورغلا کر اور یہ کہہ کر کہ وہ غیر شادی شدہ ہے۔ لڑکی کو اغوا کرکے لے گیا۔ چند دن تک اس کے ساتھ زنا کاری کی اور پھر اس گناہ کو چھپانے کے لیے جعلی نکاح کروالیا۔ اس میں لڑکی کا اصل کوئی وارث رضا مند نہیں ہے۔اور گھرکا کوئی فرد لڑکی کے نکاح کے وقت حاضر نہیں تھا۔ اور اب وہ جعلی نکاح نامہ لیے پھرتا ہے جس میں فرضی گواہان ہیں۔(مہرحاجی لیاقت علی لکشمی چوک۔ لاہور) (۲۹ ستمبر ۱۹۹۵ء) جواب :صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ نکاح ہذا ولی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے ۔ جب کہ انعقادِ نکاح کے لیے شریعت میں ولی کی اجازت شرط ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: (( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہَا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ۔)) [1] ’’جو عورت اپنا نکاح بلا اذنِ ولی کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ اس کا نکاح باطل ہے۔ اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ اور دوسری روایت میں ہے: (( لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ)) [2] یعنی ولی کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا۔(مشکوٰۃ) لہٰذا ان دلائل کی رُو سے اور دیگر بعض دلائل کے پیش نظر مذکور نکاح ناقابلِ اعتبار ہے۔ عورت اور مرد میں فوراً تفریق کرادی جائے۔ اور جہاں تک مرد کا پہلے سے شادی شدہ اور صاحب اولاد ہونے کا تعلق ہے، سو یہ کوئی قابلِ مواخذہ شئے نہیں کیونکہ اسلام میں تعددّ ازواج کی اجازت موجود ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ﴾ (النساء:۳) ’’ جو عورتیں تم کو پسند ہوں، دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔‘‘ ہاں البتہ ولی کا خیر خواہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ بصورت ِ دیگر حق ِ ولایت دوسرے کی طرف منتقل ہوسکتاہے۔ دارقطنی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اگر ولی نقصان دینے والا ہو تو عورت دوسرے کو ولی بنا کر نکاح
Flag Counter