Maktaba Wahhabi

63 - 382
اس کا وجود نہیں ہے ۔ اسلام نے صحیح شناخت کا معیار صرف ورع و تقویٰ قرار دیا ہے۔ (۲) آپس میں رشتے قائم کرنے کی بنیاد محض عقائدی اتفاق اور اخوت اسلامی ہونا چاہیے۔ لوگوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرکے اس بنیاد پر سلوک روا رکھنا۔ ہندووانہ تصور ہے۔ مدعیان ِ کتاب و سنت کا اوّلین فرض ہے کہ معاشرہ میں موجود برائیوں اور قباحتوں کے خلاف جہاد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ (۳) سائل کے جذبات بڑے صحیح اور ٹھیٹھ اسلامی ہیں۔ کاش تمام مسلمان بالخصوص سب اہل حدیث انہی جذبات کے حامل اور ان کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے اہل ہو جائیں۔ انتخابِ رشتہ میں دینداری کو مقدم رکھنا: سوال : بندہ کے سامنے دو رشتے ہیں، جن میں سے ایک لڑکی قرآن کی حافظہ اور قاریہ ہونے کے علاوہ دینی اور دنیوی علوم کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔ دوسری لڑکی بندہ کے رشتہ داروں سے ہے جو کہ دینی اور دنیوی تعلیم سے خالی ہے۔ بندہ کے والدین بندہ کی شادی رشتہ دار لڑکی کے ساتھ زبردستی کرنا چاہتے ہیں اور بندہ اس کو دینی اور دنیوی تعلیم سے خالی ہونے اور اخلاق باختہ ہونے کی وجہ سے بالکل پسند نہیں کرتا جب کہ اوّل الذکر رشتہ بندہ کو ہر لحاظ سے پسند ہے۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔ ( ایک سائل) (۱۲ اگست، ۱۹۹۴ء) جواب :صحیح روایات میں موجود ہے کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بناء پر کیا جاتا ہے۔ مال، حسب و نسب، جمال اور دینداری ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ازدواجی تعلقات میں بنیاد صرف دینداری کو بنانا ہے۔ ((فَاظْفُرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ)) [1] امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں حدیث ہذا پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: (( بَابُ مَا یُؤْمَرُ بِہِ مِنْ تَزْوِیجِ ذَاتِ الدِّینِ ۔)) یعنی ’’شرعاً حکم ہے کہ دیندار عورت سے نکاح کرنا چاہیے۔‘‘ صاحب ’’عون المعبود‘‘ رقمطراز ہیں: ’’ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل دین و مروّت کا ہر شے میں مطمح نظر دین ہونا چاہیے۔ بالخصوص وہ مصاحبہ جس کی طویل صحبت درکار ہے۔ دیندار عورت کا حصول ہی اصلاً مقصدکی تکمیل ہے۔‘‘ [2] لہٰذا آپ نے حافظہ، قاریہ دیندار رشتہ کو پسند کرکے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تکمیل کی ہے۔ اس پر قائم رہنا
Flag Counter