Maktaba Wahhabi

220 - 382
نے فرمایا: بیوہ کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کا اذن (رضامندی) کے بغیر نہ کیا جائے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اس کا اذن کس طرح ہو گا( وہ حیا سے بولتی نہیں؟ ) فرمایا : خاموش رہنا ہی اس کا اِذن ہے۔‘‘[1] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ لڑکی بالغہ ہو کر فسخ کراسکتی ہے کیوں کہ نکاح اس کے اِذن سے ہونا چاہیے اور صغر سنی میں وہ قابل اِذن نہیں ہوتی کہ اس سے اجازت لی جائے۔ ضروری ہے کہ بڑی ہو کر وہ اپنا حق لے سکے جس کی صورت یہ ہے کہ اس کو فسخ کا اختیار ہو، مزید یہ کہ مرد کا دماغی توازن قائم نہ ہونا بھی عورت کے لیے زیادہ اختیار کی سہولت پیدا کرتا ہے ، اس بناء پر بلا تردد عورت علیحدگی اختیار کر سکتی ہے۔ جوان بالغ لڑکی کا اس کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا: سوال :ایک والدِ حقیقی نے اپنی جوان، بالغ لڑکی کا نکاح اس سے اجازت یا رضاحاصل کیے بغیر اپنے کسی رشتے دار لڑکے سے کردیا ہے۔ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی۔ لڑکی مذکورہ نکاح سے پہلے بھی برملا کہتی رہی کہ میں اس لڑکے کے ساتھ شادی کرنے پر ہر گز راضی نہیں ہوں اور اب نکاح کے بعد بھی لڑکی عدمِ رضا کا اظہار کرتے ہوئے اپنے رشتہ داروں کے سامنے رونا شروع کردیتی ہے۔ اس نکاح کا قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا حکم ہے ؟ جواب :بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہونا چاہیے، چاہے، نکاح کرنے والا اس کا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ حدیث میں ہے: وَالْبِکْرُ یَسْتَأْذِنُہَا أَبُوہَا فِی نَفْسِہَا، وَإِذْنُہَا صُمَاتُہَا۔[2] ’’باپ باکرہ( کنواری)سے اس کے نفس کے بارے میں(نکاح) میں اجازت طلب کرے۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَبِہَذِہِ الْفَتْوَی نَأْخُذُ، وَأَنَّہُ لَا بُدَّ مِنْ اسْتِئْمَارِ الْبِکْرِ، وَقَدْ صَحَّ عَنْہُ - صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - الْأَیِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا مِنْ وَلِیِّہَا، وَالْبِکْرُ تُسْتَأْمَرُ فِی نَفْسِہَا، وَإِذْنُہَا صُمَاتُہَا وَفِی لَفْظٍ وَالْبِکْرُ یَسْتَأْذِنُہَا أَبُوہَا فِی نَفْسِہَا، وَإِذْنُہَا صُمَاتُہَا وَفِی الصَّحِیحَیْنِ عَنْہُ - صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - لَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا: وَکَیْفَ إذْنُہَا؟ قَالَ أَنْ تَسْکُتَ .
Flag Counter