Maktaba Wahhabi

219 - 382
نکاح اس کے اذن کے بغیر نہ کیا جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی اس سے اذن(رضامندی) کی کیا صورت ہے (کیونکہ وہ حیاسے بولتی نہیں) فرمایا خاموشی اس کا اِذن(رضامندی) ہے۔‘‘ [1] اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکی بعد از بلوغت نکاح فسخ (ختم) کراسکتی ہے کیونکہ نکاح اس کے اذن سے ہونا چاہیے اور صغر سنی میں وہ قابلِ اذن نہیں تھی۔ ضروری ہے کہ بلوغت کے بعد اپنا حق استعمال کرسکے۔ دوسری طرف شرعی طورپر باپ کو اجازت ہے کہ وہ بچپن میں اپنی بچی کا نکاح کر سکتا ہے جس طرح کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہاا کا نکاح صغر سنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا تھا۔[2]البتہ اس کے بعد عورت کو خیارِ بلوغت(بالغ ہونے کے بعد نکاح کو برقرار رکھنے کا اختیار) حاصل ہوتاہے۔ کما تقدم۔ بشرطیکہ بعد از بلوغت شوہر سے مجامعت نہ کر چکی ہو ورنہ اختیار باطل ہو جاتا ہے۔ حدیث میں ہے: فَانْ قُرُبَکِ فَلَا خِیَارَ لَکِ [3] علاوہ ازیں خود عہد رسالت میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ لڑکی کا نکاح، اس کی اجازت اور رضامندی کے بغیر کر دیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کو یہ اختیار دیا کہ وہ نکاح برقرار رکھے یا ردّ کردے۔( مسند احمد، ابن ماجہ اور دیگر کتب احادیث) لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بھی لڑکی کو نکاح ردّ کرنے کا شرعی حق حاصل ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پنچایت یا عدالت سے فسخ نکاح کی ڈگری لی جائے اور پھر کسی نئی جگہ شادی ولی کی اجازت کے ساتھ کی جائے۔ یا جس لڑکے کے ساتھ اس کا نکاح کیا گیا تھا وہ طلاق لکھ کر بھیج دے۔ (ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔) کیا بچپن میں کیے ہوئے نکاح کو لڑکی بالغ ہونے کے بعد فسخ کروا سکتی ہے؟ سوال :ہمیں مسئلہ ’’خیارِ البلوغ‘‘ کے متعلق آپ سے فتویٰ مطلوب ہے ، کیا ایسی لڑکی جس کا قبل از بلوغ نکاح ہوا ہے ۔ بعد البلوغ اُسے فسخ نکاح کا حق حاصل ہے ؟ بالخصوص جب مرد دماغی توازن صحیح نہ رکھتا ہو اور لڑکی کسی بھی صورت میں اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ کیا ایسی لڑکی کو کم از کم خلع کا حق حاصل ہے ؟ (سید حضرۃ اللہ شاہ راشدی ۔ سندھ) (۹ جنوری ۲۰۰۴ء) جواب :صورتِ مذکورہ میں عورت کو نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہے۔ چنانچہ ’’صحیحین‘‘ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter