Maktaba Wahhabi

238 - 382
کیا حق مہر کی رقم مسجد یا مدرسہ پر صرف ہو سکتی ہے؟ سوال : نکاح کے طویل عرصہ کے باوجود حق مہر ادا نہ کیا گیا اور طلاق دے دی یا عورت وفات پا گئی۔ اس صورت میں وہ واجب الاداء حق مہر مسجد یا مدرسہ میں یا راہِ للہ ادا کیا جا سکتا ہے یا کہ نہیں۔ (سائل عطا ء اللہ شاہ بمقام بڑھے والا، چک نمبر ۱۰۲، ر، ب۔ ڈاکخانہ خاص تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد) ۹ اگست۱۹۹۱،ص:۸۰۵ جواب : مہر چونکہ عورت کا حق بذمہ خاوند ہے۔ لہٰذا اس کی ادائیگی ہر صورت ضروری ہے اور اگر وہ وفات پا چکی ہو تو اس کے ورثاء بقدر حصص حق دار ہیں۔ دیگر مقامات پر تصرف بھی متعلقہ افراد کی رضا مندی سے ممکن ہے ورنہ نہیں۔ (ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔)[1] شرعی طور پر حق مہرکی کوئی مقدار متعین ہے یا نہیں؟ سوال : شرعی طور پر حق مہر کی کوئی مقدار مقرر ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مقدار کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں۔ جواب : الجواب بعون الوھاب۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنْ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ … اَقُوْلُ وَ بِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ ۔واضح ہو کہ شرعاً حق مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں۔ بلکہ اس کی تعیین ہر شخص کے حسب حال ہے۔ کوئی شخص جو بھی مقدار بآسانی و بسہولت ادا کر سکتا ہے ، مہر مقرر کرلے۔ شرعاً کوئی مانع نہیں چنانچہ: ۱۔المغنی لابن قدامہ (ج:۶،ص:۶۸۰) پر ہے: (( اِنَّ الصَّدَاقَ غَیْر مُقَدَّرٍ لَّا اَقَلُّہٗ وَلَا اَکْثَرُہٗ )) ’’ کہ مہر کی تھوڑی یا زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں۔‘‘ ۲۔’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں ہے کہ: ’’فقہاء کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی حد نہیں۔ البتہ مہر کی کم از کم مقدار میں اختلاف ہے۔(ج:۲،ص:۲۱) ۳۔’’المیزان الکبریٰ للشعرانی‘‘ (ج:۲،ص:۱۱۷، کتاب الصداق) میں ہے: (( وَ مِنْ ذٰلِکَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَ مَا لِکٍ اِنَّ اَوَّلَ الصَّدَاقِ و مع قولِ الشَّافِعِیِّ وَ اَحْمَدَ لَا
Flag Counter