Maktaba Wahhabi

95 - 382
جواب : خفیہ طور پر نکاح کرنا نا جائز ہے۔ حدیث میں ہے: ’’جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ ((لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ)) [1] ایک دوسری روایت میں ہے:’’وہ عورتیں بد کار ہیں جو گواہوں کے بغیر اپنا نکاح کر لیتی ہیں۔‘‘ ((اَلْاَصَحُّ اَنَّہُ مَوْقُوْفٌ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ۔ رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ )) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نکاح کا معاملہ پہنچا جس میں صرف ایک مرد اور عورت گواہ تھے۔ فرمایا: یہ پوشیدہ نکاح ہے، میں اسے جائز نہیں رکھتا۔ اگر مجھے پیشگی علم ہو جاتا تو میں رجم کر دیتا۔ کیونکہ اس نکاح میں گواہی مکمل نہیں۔ واضح ہو کہ جمہور کے نزدیک نکاح میں کم از کم دو عادل گواہ ہونے ضروری ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’وہ نکاح پوشیدہ ہے جس میں گواہوں کو کتمان (راز رکھنے) کی تلقین کی گئی ہو۔‘‘ [2] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لَا نِکَاحَ إلَّا بِشَاہِدَیْ عَدْلٍ ۔)) [3] ’’ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا‘‘ صاحب ’’المشکوٰۃ ‘‘نے متعدد احادیث بیان کی ہیں، جن میں اعلانِ نکاح کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔ لڑکی سے خفیہ یارانہ اور چوری چھپے بغیر ولی کے نکاح کرنا: سوال : ہمارے علاقہ میں آج کل شادی اور نکاح کا ایک نیا طریقہ رواج پا گیا ہے۔ وہ یہ کہ لڑکا لڑکی سے خفیہ رابطہ کرکے اس کو رضا مند کرلیتاہے اور پھر کسی وقت لڑکا، لڑکی چوری چھپے اپنے اپنے گھروں سے اُٹھ کر کسی دوسری جگہ پر رشتہ دار کے ہاں چلے جاتے ہیں اور کسی مولوی صاحب کے پاس جا کر باہمی رضا مندی کا اظہار کرکے نکاح پڑھوا لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس موقع پر لڑکا، لڑکی کا کوئی ’’ولی‘‘ موجود ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس قسم کے نکاح کی شرعی حیثیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں ذرا تفصیل سے بیان فرمائیے۔(حاجی عبدالرحمن السلفی چترال) (۱۵ جنوری ۱۹۹۹ء) جواب : خفیہ یارانے کا نکاح ممنوع ہے۔ قرآن میں ہے: ﴿وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ ﴾ (النساء:۲۵) اور دسری جگہ ہے: ﴿وَ لَا مُتَّخِذِی ْاَخْدَانٍ ﴾ (المائدۃ: ۵)
Flag Counter