Maktaba Wahhabi

262 - 382
’’یعنی حدیث ہذا سے استدلال کیا گیا ہے کہ جس نے طلاق نامہ لکھ لیا۔ اس کی بیوی مطلقہ ہو جائے گی۔ کیوں کہ اس نے دل سے عزم کر لیا ہے اور تحریر سے عمل کا اظہار کیا ہے۔ جمہور علماء کا یہی مسلک ہے۔‘‘ صورتِ سوال سے یہ بھی ظاہر ہے کہ جاوید نے ڈیڑھ ماہ کے اندر رجوع بھی کر لیا تھا۔ بایں ہمہ طلاق رجعی کی صورت میں رجوع درست فعل ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَ بُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا ﴾ (البقرۃ:۲۲۸) ’’اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تواس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ نیز واضح ہو کہ زوجہ کو وقوع طلاق کا علم ہونا ضروری امر نہیں ہے۔ مجردّ تحریر سے ہی واقع ہو گئی تھی۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:المغنی ابن قدامہ۔ بنا بریں لڑکے کے باپ کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے گھر آباد نہیں کر سکتا کیونکہ اس نے طلاق تو ضرور دی تھی، جو واقع بھی ہو گئی، لیکن ڈیڑھ ماہ کے اندر رجوع کر لینے کی وجہ سے عدت کے اندر رجوع ہو گیا جو شرعاً صحیح ہے۔ اس کے بعد میاں بیوی کے درمیان ازدواجی تعلقات بالکل جائز اور صحیح ہیں۔ اس لیے جاوید کے باپ کو اس معاملے میں مداخلت کا شرعی حق حاصل نہیں۔ جاوید کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو گھر لے آئے۔ رجوع کے بعد وہ اس کی ہی بیوی ہے۔ پھاڑی گئی تحریر وقوعِ طلاق میں مؤثر ہے یا نہیں؟ سوال : میرے برادرِ نسبتی نے کچھ عرصہ قبل میرے تین دوستوں کو باہر بھجوانے کے لیے کچھ رقم اور پاسپورٹ میرے ذریعے لیے مگر ان کو باہر نہیں بھجوایا بلکہ انکی رقم اور پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے۔ گزشتہ دنوں میں اپنی بیوی کے ہمراہ اپنے سسرال گیا اور میں نے ان سے رقم اور پاسپورٹ کے بارے میں وضاحت طلب کی تو نوبت ہاتھاپائی تک پہنچ گئی۔ میں نے طیش میں آکر کہا کہ میں تمہاری بہن کو طلاق دے دوں گا۔ اور کاپی کے سادہ ورق پر لفظ طلاق لکھ کر جیب میں رکھ لیا اور شام کے وقت واپسی پر میرے برادرِ نسبتی میرے سسر اور میرے ماموں سسر نے مجھے مارنا پیٹنا شروع کردیا اور میری جیب سے وہ کاغذ بھی نکال لیا۔ جس پر لفظ طلاق تحریر تھا اور میری بیوی کو تشدد کرکے واپس اپنے ساتھ لے گئے اور اب انھوں نے مقامی تھانے کے تھانیدار کو رشوت دے کر طلاق ثابت کروالی۔ جناب عالی میرا میری بیوی کے ساتھ کسی قسم کا اختلاف یا جھگڑا نہیں۔ اب براہِ مہربانی وضاحت فرمائیں کہ یہ طلاق ہو گئی یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ صادر فرمائیں۔
Flag Counter