Maktaba Wahhabi

180 - 382
میں بحوالہ ’’البحر ‘‘ اس کی تعریف یوں ہے: (( وَالنُـثَارُ بِضَمِّ النُّوْنِ وَ کَسْرہَا مَا یَنْثُرُ فِی الْعُرْسِ عَلَی الْحَاضِرِیْنَ مَوضُوْعٌ)) اس سے اعم ہے کہ ملفوظ شئے چھوہارے ہوں یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز ۔ روپیہ پھل وغیرہ ہو۔ مسئلہ ہذا میں اہل علم کے معروف دو قول ہیں۔ ایک گروہ جواز کا قائل ہے۔ جب کہ دوسرے گروہ کامسلک عدم ِ جواز ہے۔ ان لوگوں کا استدلال بعض ان احادیث سے ہے جن میں نہب اور خلسہ یعنی بزورِبازو اور اچک کر کسی شئے کو حاصل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ۱۔(( نَھٰی عَنِ النّھْبَۃِ وَالْخَلْسَۃِ ۔))[1] ’’لوٹنے اور اچکنے سے منع فرمایا۔‘‘ ۲۔ ((نَھٰی عَنِ الْمُثْلَۃِ وَالنَّھْبَی ۔)) [2] ۳۔ ((مَنِ انْتَہَبَ فَلَیْسَ مِنَّا۔))[3] ’’جس نے کسی کو لوٹا وہ ہم سے نہیں۔‘‘ اس پر منتقی الاخبار میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: بَابُ حُجَّۃ مِنْ کَرِہَ النُــثَار وَالاِنْتِہَاب عَنْہُ ۔ مصنف ’’ابن ابی شیبہ‘‘ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور عکرمہ سے بھی اس فعل کی کراہت نقل کی ہے۔ جب کہ اصحاب قول اوّل کا استدلال حضرت جابر بن عبد اللہ، معاذ بن جبل اور انس رضی اللہ عنہم سے مروی بعض مرفوع روایات سے ہے جو جواز پر دال ہیں لیکن روایات ’’متکلم فیہا‘‘ ہیں۔ اس کے باوجود قاضی شوکانی کا رجحان جواز کی طرف ہے۔ (نیل الاوطار،جز:۶،ص:۱۹۸) علامہ مجد الدین ابن تیمیہ صاحب ’’المنتقیٰ‘‘ حدیث عبداللہ بن قرط کے تحت فرماتے ہیں۔ جس میں یہ ہے کہ گیارہ ذوالحجہ منیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پانچ یا چھ اونٹ پیش کیے گئے۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ پہلے مجھے ذبح ہونے کی سعادت نصیب ہو۔ اس کے اخیر میں ہے:قَالُوا قَالَ مَنْ شَائَ اقْتَطَعَ یعنی جانوروں نے کہا جو چاہے کاٹ کھائے۔(رواہ احمد، النسائی وابن حبان فی صحیحہ و سکت عنہ ، ابوداؤد والمنذری) وَ قَدْ احْتَجَّ بِہٖ مَنْ رَخَّصَ فِیْ نِـثَارِ الْعُرْسِ وَ نَحْوِہٖ یعنی’’ اس حدیث سے اُس شخص نے دلیل لی ہے جو بوقت خوشی شادی وغیرہ حاضرین میں اشیاء پھینکنے اور لوٹنے کے جواز کا قائل ہے۔‘‘
Flag Counter