Maktaba Wahhabi

72 - 382
پڑھنا مستحب ہے واجب نہیں اس کے بعد ایجاب وقبول کرایا جائے، یعنی لڑکے سے مخاطب ہو کر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص نے اپنی بیٹی مسماۃ فلانہ کو اپنی ولایت میں تمہاری زوجیت میں اتنے مہر کے بدلے نکاح کردیا ہے۔ آپ نے قبول کرلیا وہ جواب دے کہ میں نے اتنے مہر کے بدلے اپنی زوجیت میں اسے قبول کرلیا اس کے بعد متعاقدین کو یہ دعا دی جائے۔ (( بَارَکَ اللّٰهُ لَکُمْ، وَبَارَکَ عَلَیْکُمْ، وَجَمَعَ بَیْنَکُمَا فِی خَیْرٍ۔)) [1] ’’اللہ تعالیٰ تیرے اس کام میں برکت کرے اور تیرے واسطے برکت دے اور تجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں میاں بیوی کے درمیان بھلائی ہو۔‘‘ یاد رہے کنواری لڑکی کا خاموش رہنا اجازت کے حکم میں ہے اور لڑکی کو علیحدہ ایجاب وقبول کرانے کا شریعت میں کوئی وجود نہیں۔ نکاح کے بعد چھواروں کو تقسیم کردینے کا کوئی حرج نہیں۔ (مواہب اللدینہ وغیرہ) نکاح کے بعد لڑکی کو اگر خاوند کے ہاں رخصت کرنا ہو تو حسب توفیق ضروری لباس وغیرہ کے ساتھ رخصت کردینا چاہیے نہ خلاف شرع کوئی کام ہو اور نہ تکلف بیجا ہو۔ اس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا کی رخصتی کا واقعہ ملاحظہ ہو: فرماتی ہیں جب میری عمر چھ برس کی تھی اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا اور میری رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی۔ فرمایا میں ہجرت کرکے مدینہ آئی ایک مہینے تک بخار آیا۔ میرے سر کے بال ٹوٹ ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے کانوں کی لو تک ہوگئے تھے۔ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولے پر تھی کہ میری ماں امّ رومان نے مجھے آواز دی میں حاضر ہوئی مجھ کو خبر نہیں تھی کہ وہ میرے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہیں۔ مجھے دروازہ پر کھڑا کرلیا میں ہانپ رہی تھی۔ جب میرا ہانپنا ٹھہر گیا تو مجھے ایک گھر میں داخل کردیا گیا اس میں انصار کی عورتیں تھیں۔ مجھے دیکھ کر دعائیں دینے لگیں خیر وبرکت اور اچھے نصیبے کی دعائیں دیں۔ میری ماں نے مجھے ان عورتوں کے حوالے کردیا۔ ان عورتوں نے میرے سر کو دھویا اور مجھے ٹھیک ٹھاک کر دیا۔ اتنے میں اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کے وقت تشریف لائے میں ڈر گئی۔ ان عورتوں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کردیا۔[2] یہ حضرت عائشہ کی رخصتی کا حال، نہ تکلف ہے نہ بارات ہے نہ ڈولا ہے اور نہ گھوڑا اور نہ وہ تکلّفات ہیں جن کا اس زمانے میں رواج ہے۔ (ماخوذ از اسلامی خطبات)
Flag Counter