Maktaba Wahhabi

198 - 523
((والسمع والطاعۃ للأئمۃ فیما یحب اللّٰه ویرضی، ومن ولي الخلافۃ بإجماع الناس علیہ ورضاہم بہ، فہو أمیر المؤمنین۔)) ’’اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضا مندی کے کاموں میں حکمرانوں کی بات سنی جائے اور اطاعت کی جائے اور جس کسی کو لوگوں کی رضامندی اور اجماع سے خلیفہ مقرر کیا گیاہو، وہ امیر المؤمنین ہے۔‘‘ شرح: … اسلام میں اطاعت گزاری اور نظم و نسق کے ساتھ منسلک رہنے کے کچھ مقرر شدہ اصول اور طے شدہ ضابطے ہیں، جن سے کسی بھی صورت میں انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ ان ہی ضابطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق)) [1] ’’ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔‘‘ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(…سے خلیفہ مقرر کیا گیاہو، وہ امیر المؤمنین ہے): پھر اس کے بعد حاکم مقرر ہونے کی صورتوں میں سے ایک صورت کا ذکر کرتے ہوئے مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس کو مسلمانوں کے اجماع سے حاکم مقرر کیا جائے ‘‘۔یہی اس کی مثالی(آئیڈیل) صورت ہے۔ اس اجماع کی کئی صورتیں ہو سکتیں ہیں۔ ایک صورت یہ کہ اہل حل و عقد اہل علم علماء و فقہاء، مفتیان اور سردار بڑے وڈیرے مل کر کسی کو اپنا حاکم مان لیں۔ اس لیے کہ ہمیشہ لوگوں کے دین اور دنیا کے اہم ترین اور بڑے مسائل((دینی مسائل جیسے حج، امر بالمعروف و النہی عن المنکر، اور دنیا کے مسائل میں جیسے بیعت، سمع و طاعت وغیرہ)) حکام کے ذریعہ سے ہی درست طور پر پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ جو ارباب حل و عقد کے ذریعہ سے انجام پاتے ہیں اور لوگ ضرورت کے تحت اہل حل و عقد کے تابع ہوتے ہیں۔ دوسری صورت غلبہ پا لینے کی ہے۔خواہ جو بھی صورت ہو، اور یہ حاکم امن بھی قائم کرلے، بھلے اس میں اہل حل و عقد کی رضا نہ بھی شامل ہو، تو اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔اگر ایسا نہ کیا جائے تو ہر طرف انارکی پھیلنے اور ملک میں خونریزی ہونے کا خدشہ ہے، جس میں مظلوموں اور معصوموں کا خون ناحق بہے گا۔ اسلام کسی کا خون نہیں بہانا چاہتا۔بلکہ ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور معصوم جانوں کے تحفظ کی ضمانت دینے کے لیے حاکم طبقہ کی اطاعت اور ان کے خلاف بغاوت نہ کرنے کی تعلیم دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یکون علیکم أمراء، تعرفون و تنکرون، فمن عرف بریء، من کرہ سلم، ولکن من رضي و تابع،،۔ قالوا: أفلا نقاتلہم ؟ قال: ’’ لا ما صلوا))[2]
Flag Counter