Maktaba Wahhabi

522 - 523
مخلوق [میں سے کسی ایک ] کی۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی انسان کی کو ئی اطاعت نہیں ہے۔اور نہ ہی اس پر کسی کو پسند کیاجائے گااور ان تمام کو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے مکروہ جانیں۔‘‘ شرح: … مندرجہ بالا پیرائے میں لوگوں کے ساتھ معالات کا ایک موٹا اور سنہری اصول بیان کیا گیا ہے، جو کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے عین مطابق ہے: ﴿ وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾(المائدہ: 2) ’’اورنیکی اوربھلائی کے کاموں میں تعاون کرو،اوربرائی اور گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ بہت سخت عقاب والا ہے۔‘‘ اہل سنت و الجماعت کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ احکام شریعت کی پیروی کرتے ہوئے کسی بھی ایسے کا حکم نہ مانیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لا طاعۃ المخلوق في معصیۃ الخالق))[1] ’’ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔‘‘ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ((إنما الطاعۃ بالمعروف))[2] ’’ بیشک اطاعت معروف(بھلائی)کے ساتھ ہے۔‘‘ پس جو کوئی گناہ اوربرائی کا حکم دے گا اس کی بات نہیں مانی جائے گی۔ اگرچہ حکم دینے والی کوئی بھی او رکیسا بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی یہی عادت ذکر کرکے ان پر رد کیا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی میں اپنے بڑوں کا حکم مانتے تھے، ارشاد الٰہی ہے: ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾(التوبۃ: 31) ’’انہوں نے اپنے مولویوں اوردرویشوں(علماء و مشائخ)کو اللہ کے سوا(جواکیلا اللہ ہے)رب بنالیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے بعد انسان پر سب سے بڑا حق اس کے والدین کا ہے، لیکن جب والدین بھی اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں گے تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّ فِضٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُo وَ اِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْمَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَ صَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرِوْفًا…﴾(لقمان: 14۔15)
Flag Counter