اوصاف سے پہچاناہو،حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:طبقات ابن سعد میں عبداللہ بن عمرالعمری سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں:جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو ظاہرکیا تو انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا،جو عورتوں کے بیچ چہرے پر نقاب کئے کھڑی تھیں،وہ ان کے پاس گئیں اور ان کا کپڑا پکڑ کر پوچھا:اے شقیراء!(سرخ رنگت والی) تونے کیسا پایا؟[1] (مقصد یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھیں،مگر پھربھی صفیہ انہیں پہچان گئی،جس سے واضح ہوا کہ چہرہ دیکھے بغیر،جسم کی علامات سے بھی کسی کو پہچاناجاسکتاہے) عبداللہ بن عمروفرماتے ہیں:ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک شخص کو قبر میں اتارا، جب ہم لوٹے اوراس کے گھر کے دروازے کے پاس پہنچے تواچانک آپ نے ایک عورت کو دیکھا،ہمیں نہیں خیال کہ آپ نے اسے پہچان لیاہوگا،آپ نے فرمایا: اے فاطمہ!… الحدیث۔[2] بلکہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے فرمایا: میں حولاء کی خوشبومحسوس کررہا ہوں،کیاتمہیں آرہی ہے؟[3] ان تمام نصوص کے ہوتے ہوئے اگرکوئی شخص اسی بات پر مصررہے کہ کسی بھی خاتون کی معرفت اس کے چہرے کے بغیر ممکن نہیں ہے،تو اس نے ایک وسیع باب میں خوامخواہ تنگی پیدا کردی۔ پھر بعض رواۃ نے یہ اثر قتادہ سے روایت کیا ہے،انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |