جماعت میں حاضر ہوتی تھیں اس طرح کہ وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوتی تھیں،پھر نماز سے فارغ ہونے پر اپنے گھروں کو لوٹتیں ،اوراندھیرا ہونے کی وجہ سے کوئی انہیں پہچان نہ پاتا۔( متفق علیہ) اس شبہ کاجواب کئی وجوہ سے ہے: (۱)یہ حدیث تو چہرہ ڈھانپے رکھنے کی دلیل ہے اور یہی صحابیات کا عمل تھا،جیسا کہ عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہاکے قو ل (متلفعات بمروطھن)سے واضح ہورہا ہے ،یعنی وہ اپنے کمبلوں میں لپٹی ہوتی تھیں۔ یہ الفاظ تو پردے کے تعلق سے انتہائی مبالغہ اختیار کرنے کی مشروعیت پر دلالت کررہے ہیں،صحیح بخاری کی ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی وارد ہیں:(لایعرفن بعضھن بعضا)یعنی:پردے کی وجہ سے عورتیں بھی ایک دوسرے کو نہ پہچان پاتیں۔[1] ظاہر ہے اگر اوڑھنیاں اوڑھنے اور ان میں لپٹنے میں مبالغہ نہ ہوتا تو کم از کم ایک عورت اپنے ساتھ والی خاتون کو ضرور پہچان لیتی،جیسا کہ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ مرد اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو پہچان لیتا تھا۔ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کرایسے وقت میں لوٹا کرتے تھے کہ ایک آدمی اپنے ساتھ والے کو (بمشکل) پہچان پاتا۔[2] علامہ عینی فرماتے ہیں:حدیث کالفظ (متلفعات)کا معنی :متلفحات سے ہوسکتا ہے، یعنی لحاف میں لپٹی ہوئیں ،یہ تلفع سے ماخوذ ہے،جس کامطلب :شدت کے ساتھ چادر یا کمبل کے ساتھ لپٹ کر اپنے آپ کو اس طرح چھپالینا کہ گویا کوئی لحاف اوڑھا ہواہے۔[3] |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |