پھرفرمایا:جس کپڑے کوبوڑھی عورت کیلئے، قرآن نے اتار رکھنے کی رخصت دی ہے، وہ صرف اوپر کی اوڑھنی ہے۔[1] معاذہ العدویۃ فرماتی ہیں:میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے سوال کیا: محرم عورت کیالباس پہنے ؟فرمایا:محرم عورت نہ تونقاب لگاسکتی ہے ،نہ ہی ڈھاٹاباندھ سکتی ہے،اور ضروری ہے کہ وہ اپنا کپڑا (بوقت ضرورت)چہرے پر لٹکالے۔[2] ابن طاؤس ،اپنے والد طاؤس سے نقل کرتے ہیں :محرم عورت اپنا کپڑا چہرے پر ڈال رکھے،البتہ نقاب نہ لگائے ۔[3] امام ابن کثیر،جناب عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں:(قرآن مجید نے بوڑھی عورت کیلئے،جس کپڑے کو اتارنے کی رخصت دی ہے)وہ اوپر کی اوڑھنی یا چادر ہے۔ یہی تفسیر عبداللہ بن عباس ،عبداللہ بن عمر،مجاہد،سعید بن جبیر،ابوالشعثاء،ابراھیم نخعی، حسن بصری،قتادہ،زہری اور اوزاعی رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ ابوصالح فرماتے ہیں :(بوڑھی عورت )اجنبی مردوں کے سامنے صرف اوپر کی اوڑھنی اتار سکتی ہے ،باقی قمیض اور دوپٹہ پہنے رہے گی۔ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے[ أن یضعن من ثیابھن ]کی قرأت بھی منقول ہے۔ (جس کا معنی یہ ہوگا کہ اپنے کپڑوں میں سے کچھ اتارسکتی ہے) اس قرأت کو نقل کرکے سعید بن جبیر وغیرہ فرماتے ہیں:اس سے مراد صرف اس اوڑھنی کو اتارنے کاجواز ہے جو قمیض اوردوپٹہ کے اوپر ہوتی ہے۔لہذا بوڑھی عورت کیلئے بھی اجنبی مردوں کے سامنے دوپٹہ اوڑھے رکھنا ضروری ہے۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |