کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے اور اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جو(اللہ سے) ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
4۔ نیز اللہ تعالیٰ جنت کے بارے میں فرماتے ہیں:
﴿سَابِقُوا إِلَی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَائَ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ ذَلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاء ُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾(الحدید:21)
’’(اے بندو!)سبقت حاصل کرو، اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور(اس) جنت(کی طرف) جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کے برابر ہے اور جو ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں۔یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔‘‘
5۔ اس جنت کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ بھی کیا ہے، اور جنت میں داخل بھی ہوئے، اس مشاہدہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی o عِندَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی o عِندَہَا جَنَّۃُ الْمَأْوَی﴾(النجم: 13 تا 15)
’’ اور انہوں اس کو ایک اور بار بھی دیکھا ہے۔ پرلی حد کی بیری کے پاس۔ اسی کے پاس رہنے کی جنت ہے۔‘‘
6۔ جہنم کا ایندھن(کافر) انسان اور پتھر ہوں گے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ﴾(البقرۃ: 24)
’’اگر ایسا نہیں کرتے اور ہر گز ایسا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں وہ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
یہ سب اس بات کے دلائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کو پیدا کردیا ہے۔ ان آیات سے استدلال کی وجہ جنت کا حضرت آدم علیہ السلام کے ٹھکانے کے طور پر ذکر کیا جانا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ جنت پیدا شدہ اور موجود تھی جس میں آدم اور حوا علیہم السلام رہ رہے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لما خلق اللّٰه تبارک و تعالیٰ الجنۃ والنار، أرسل جبریل علیہ السلام إلی الجنۃ فقال:’’ أنظر إلیہا، وإلی ما أعددت لأہلہا فیہا، فنظر إلیہا، فرجع إلی اللّٰه عزو جل فقال: وعزتک لا یسمع بہا أحد إلا دخلہا، فأمر بہا فحجبت بالمکارہ۔ فقال:
|