آزمائش ہوئی مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنا بیویوں کا ان سے الگ رہنا اور اسی دوران میں کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کو بادشاہ عیسائی غسان کا خط کے ذریعے دعوت دینا اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا اس کو جلادینا اور یہ الفاظ کہہ دینا کہ جاؤ بادشاہ کو کہہ دو تیری عنایات کے بدلہ میں یعنی مقابلہ میں میرے آقا کی ناراضگی بے التفائی بدرجہا بہتر ہے یہ ان صحابہ کی استقامت و صبر تھا جس وجہ سے یہ ڈگمگائے نہیں اور ثابت قدم رہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ رب العزت کا انتہائی پیار ہے جیسے آیت مذکورہ میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
(عَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا) (التوبۃ : 118)
’’اللہ رب العزت نے ان تین صحابہ کی توبہ قبول فرمالی ہے جو پیچھے چھوڑے گئے ۔‘‘
بلکہ اس پوری آیت کریمہ سے پہلی آیت میں اللہ احکم الحاکمین ارشاد فرماتے ہیں:
(لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ) (التوبۃ : 117)
’’بلاشبہ یقینا اللہ نے نبی پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار پر بھی، جو تنگ دستی کی گھڑی میں اس کے ساتھ رہے، اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ٹیڑھے ہو جائیں، پھر وہ ان پر دوبارہ مہربان ہوگیا۔ یقینا وہ ان پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں طبقوں کے صحابہ کرام جو مہاجرین و انصار کے نام سے ذکر کیے جاتے ہیں اللہ ان سے بہت خوش ہیں چونکہ ان کا ظاہر اور باطن ہر طرح مصفی و عمدہ ہے لہٰذا ان سب بزرگوں کی استقامت و صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
|