Maktaba Wahhabi

268 - 292
بڑی قدرومنزلت ہے۔ جیسے انسان اپنے امراض وعلل کو طبیب یاڈاکٹر یا حکیم کے سامنے کھول کربیان کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں اسی طرح مرض کی شدت کی وجہ سے کراہنا یا تکلیف محسوس کرنا جس کا مقصد نفس کو تسلی دینا اور سکون حاصل کرنا ہو یا کرب والم سے راحت کے خیال سے ایسا کرنا جائز ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جہاں تک سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ’’تین چیزوں کو صبر میں شمارکیاجاتا ہے: (1)کسی کے سامنے اپنی تکلیف کی شکایت نہ کرنا۔ (2) اپنی مصیبت کا کسی کے سامنے گلہ شکوہ نہ کرنا۔ (3) اور خود اپنے میاں مٹھوبن کر اپنی ذات کا تزکیہ نہ کرنا عین صبر ہے۔‘‘ [1] اس قول کی تشریح وتوضیح میں کہا گیا ہے کہ یہاں پرسفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے اس مقولہ کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنے کرب یا اپنی مصیبت کو ناراضی وناخوشی یا اللہ کی قضاوقدرپر عدم اطمینان کی بنیادپر بیان نہ کرے اورہرکس وناکس کے سامنے اسے گاتا نہ پھرے اور مذکورہ اسباب کی بنیادپر اس کا برسرعام ڈھنڈورا نہ پیٹے،اگر اس کے پس پردہ کوئی نیک نیتی یا اجروثواب والی غرض پوشیدہ ہوتواس کا بیان کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ مثال کے طورپر تم لوگوں کے سامنے امراض کے علاج ومعالجہ کی غرض سے لوگوں سے دریافت کرو یا اس مصیبت سے چھٹکارے اور نجات کی غرض سے اپنا حال دل بیان کرڈالو یہ اور اس طرح کی صورت حال میں اس کاجواز ہے کیونکہ اس طرح کا رویہ اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے ناراضگی اور خفگی نہیں کہلاتا اور ایسا کرنے سے انسان صبر وتحمل کے دائرے سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں پر اس حقیقت کا بھی انکشاف کردوں کہ ہر وہ شخص جو صبرسے کام لینے کا دعوی کرے اسے صابر نہیں کہا جاسکتا بلکہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کا ظاہر حال گواہی دیتا ہے کہ وہ مصائب پرصابر وشاکر ہیں لیکن درحقیقت وہ جزع فزع کاشکار ہوتے ہیں جس کی بنیادپر صبر کے اجروثواب سے محرومیت ان کامقدربن جاتی ہے۔
Flag Counter