Maktaba Wahhabi

92 - 292
ہوتی ہے اور انسان ممنوعہ چیز سے خود کو بچاتا ہے۔ لہٰذا صبر نصف ایمان ہوا اور نصف شکر۔ تیسرے اعتبار سے ایمان قول اور عمل کے مجموعے کا نام ہے۔ قول دل کا اور زبان کا اور دل اور جسم کے اعضاء کے عمل کا نام ہے۔ وضاحت یہ ہے کہ جو دل سے اللہ کو جان لے لیکن زبان سے اقرار نہ کرے تو وہ مومن نہیں ہوتا۔ جیسا کہ قوم فرعون کے بارے میں ہے کہ انھیں موسیٰ علیہ السلام کے نبی ہونے کا یقین تھا مگر اس کے باوجود وہ مومن نہیں تھے۔ اسی طرح جس نے زبان سے اقرار کیا لیکن دل سے تسلیم نہ کیا وہ بھی مومن نہیں قرار دیا گیا، جیسے منافقین۔ اسی طرح ایسا شخص جس نے دل سے معرفت حاصل کر لی اور زبان سے اقرار کیا مگر اس کے باوجود مومن نہیں ہوا حتی کہ اس کا عمل، محبت، نفرت، دوستی اور دشمنی اسلام کے مطابق نہ ہو، اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت، اس کے اولیاء سے محبت اور اس کے دشمنوں سے دشمنی نہ رکھے۔ جب وہ یہ سب کرلے تو اس کے ایمان کے کامل ہونے کے لیے احکامات کی اطاعت ضروری ہے۔ یہ چاروں اسلام کے ارکان ہیں جن کا مرجع علم و عمل ہے اور عمل میں نفس کو روکنا شامل ہے اور یہ صبر کے بغیر ممکن نہیں تو ایمان کے دو حصے ہوئے ایک صبر اور دوسرا جو صبر سے پیدا ہونے والا ہے، یعنی علم و عمل۔ چوتھا اعتبار نفس میں دو قوتیں ہوتی ہیں: 1۔ پیش قدمی کی طاقت 2۔دفاع کی طاقت نفس ان دونوں قوتوں کے درمیان متردد رہتا ہے۔ دین میں بھی دو ہی چیزیں ہیں اطاعت کے لیے پیش قدمی اور نافرمانی سے دفاع اور یہ صبر کے بغیر ممکن نہیں۔
Flag Counter