Maktaba Wahhabi

108 - 222
الحذائی کے طریق سے ہے،وہ عمر وبن مالک سے روایت کرتے ہیں،وہ ابوالجوزاء سے روایت کرتے ہیں،وہ عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں، فرماتے ہیں: ایک بہت ہی خوبصورت عورت،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھاکرتی تھی،کچھ لوگ تو صفِ اول میں کھڑے ہوتے تاکہ اسے دیکھنے کی کوئی نوبت نہ بن سکے ،جبکہ کچھ لوگ پیچھے والی صف میں کھڑے ہوتے ،چنانچہ جب رکوع میں جاتے تو اپنی بغلوں کے نیچے سے جھانکتے ہوئے اس عورت کو دیکھاکرتے،جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل فرمائی:[وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْـتَاْخِرِيْنَ۝۲۴ ]( الحجر:۲۴) یعنی: اور تم میںسے آگے بڑھنے والے اورپیچھے ہٹنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں۔ ( رواہ احمد والترمذی والنسائی وابن ماجہ وغیرھم) جواب: یہ حدیث باعتبارِ سندضعیف ہے اور باعتبارمتن انتہائی منکر ہے،جس نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا،اچھا نہیں کیابلکہ تساہل کاارتکاب کیا،ایک عقل مند انسان صحابہ کرام جیسی مقدس جماعت سے،نگاہوں کی باربار کی خیانت کے صادر ہونے کا، ادنیٰ سا تصور کرسکتاہے؟ایک مسلمان اس قسم کے تصور کی ہیبت سے کانپ اٹھے گا۔ اگر کہاجائے کہ یہ حرکت،منافقین سے سرزدہوتی تھی ؟! ہم جواب میں کہیں گے:صحابہ کرام جن کے سینے غیرتِ ایمانی سے لبریز تھے اور ان کی شیروں جیسی شجاعت بھی معروف ومسلم ہے،اپنی عورتوں کے ساتھ ہونے والے اس قسم کے (بے غیرتی )کے سلوک پر کیسے خاموش رہ سکتے تھے؟حاشاوکلا۔ یہ جواب تو تب بنتا جب حدیث کی صحت ثابت ہوتی،لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ حدیث باعتبارِ سند معلول ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کوان جیسے الفاظ کے ساتھ عمروبن
Flag Counter