مالک نے،ابوالجوزاء سے روایت کیا ہے اور عبداللہ بن عباس کاذکرنہیں کیا،اور یہ نوح بن قیس کی مذکورہ سند سے زیادہ بہتر اورصریح ہے۔[1] امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ حدیث انتہائی غریب ہے،مزید فرماتے ہیں: اس حدیث کے متن میں شدید قسم کی نکارت پائی جاتی ہے،مزید فرماتے ہیں: ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ ابوالجوزاء کے کلام میں سے ہے ،جبکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا اس میں کوئی ذکرنہیں ہے۔ اس حدیث کے ضعیف ہونے کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس کے راوی عمرو بن مالک النکری کو ابن حبان نے (الثقات) میں ذکر کرکے فرمایا ہے: یہ بہت غریب حدیثیںروایت کیاکرتاتھااوربہت غلطیاں کرتاتھا۔ ابن حجر نے (التقریب)میں فرمایا ہے:سچاتھا،لیکن بہت اوہام کا شکاررہتاتھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے اس آیت کریمہ کی ایک دوسری تفسیر منقول ہے،جو مذکورہ تفسیر کے خلاف ہے،وہ [الْمُسْتَقْدِمِيْنَ]سے مراد فوت شدہ لوگ لیا کرتے تھے، اور[الْمُسْـتَاْخِرِيْنَ]سے مراد زندہ لوگ۔[2] متعدد علماء سلف سے یہی تفسیر منقول ہے ،جبکہ ابن جریر نے بھی اسی تفسیر کو پسند کیا ہے۔ اگربالفرض ہم اپنے مؤقف سے تنازل اختیار کرتے ہوئے اس حدیث کی صحت کو تسلیم کرلیں(جوقطعی ناممکن ہے)اور یہ بھی مان لیں کہ وہ عورت چہرہ کھلارکھ کر آیا کرتی تھی،تودریں صورت یہ حدیث نزولِ حجاب سے قبل پر محمول کی جائے گی ۔ یہ آیت سورۃ الحجر کی ہے ،امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:سورۃ الحجر بالاتفاق مکی سورت ہے ۔[3] |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |