Maktaba Wahhabi

121 - 222
کیا ہے،حارث کہتے ہیں:میں (آغازِ اسلام میں)اپنے والد کے ساتھ میدانِ منیٰ میں تھا، مجھے ایک جماعت دکھائی دی،میںنے اپنے والد سے پوچھا :یہ کون لوگ ہیں؟ میرے والد نے کہا: یہ ایک قوم ہے جو ایک صابی شخص کے اردگرد جمع ہے، ہم نے قریب جاکر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے اور لوگوں کواللہ تعالیٰ کی توحیداور اس پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے تھے ،لوگ نہ صرف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹھکرارہے تھے بلکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کوایذاء بھی دے رہے تھے،حتی کہ سورج کافی بلند ہوگیااور لوگ بھی آہستہ آہستہ بکھر گئے ،اچانک ایک عورت روتی ہوئی آئی ،اس کا گریبان کھلا ہوا تھا،اس کے ہاتھ میں پانی سے بھرا ایک پیالا اور ایک رومال تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برتن لے لیا اور اس میں سے پانی پیا اوروضوء کیا،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سراٹھایا اور فرمایا:اے میری بیٹی! اپنا گریبان ڈھانپ لو اور اپنے والد کے تعلق سے کوئی اندیشہ نہ رکھو،ہم نے پوچھا :یہ عورت کون ہے ؟لوگوں نے جواب دیا: یہ آپ کی بیٹی زینب ہے۔( رواہ ابن عساکر والطبرانی فی الکبیر وغیرھما) جواب:اس حدیث کا جواب متعدد وجوہ سے ہوسکتا ہے ۔ حدیث میں ایسا کوئی ذکر نہیں کہ زینب کا چہرہ کھلا ہواتھا،ان کا گریبان بے اختیاری اوربے دھیانی کی وجہ سے کھلا ہواتھا (حالانکہ اگر توجہ اوردھیان قائم ہو تو گریبان کا کھولنا ناجائز ہے)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زینب سے یہ کہناکہ اپنا گریبان ڈھانپ لو ، جس میں یہ اشارہ ہے کہ زینب کا چہرہ کھلا ہواتھا ،مگر گریبان کے ڈھانپنے کا حکم دینے کے اندرچہرہ ڈھانپنے کا حکم بھی موجود ہے؛کیونکہ گریبان ڈھانپنے کیلئے کپڑے کو سر سے لٹکایاجائے گا،ڈھانپنے کے اس عمل میں چہرہ خودبخود شامل ہوگیا۔ اس حدیث کی صحت مشکوک ہے؛کیونکہ ہشام بن عمار آخری عمر میں متغیر الحفظ
Flag Counter