ہوگئے تھے،اور ان کی یہ حدیث کبر سنی کے دور کی ہے، جب وہ تلقین قبول کیا کرتے تھے ۔ اگریہ مان لیاجائے کہ زینب کا چہرہ کھلا ہوا تھا تو یہ حدیث نزولِ حجاب سے قبل پر محمول کی جائے گی ،بلکہ سیاقِ حدیث میں اس جانب اشارہ موجود ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے قبل کا ہے ،اور ہمارے اس جواب کی تقویت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ زینب رضی اللہ عنہا کا حجۃ الوداع سے قبل انتقال ہوگیا تھا۔ ابن عساکر نے یہ بات نقل کرکے ابوزرعہ الرازی سے اس کی اور ایک دوسری روایت کی سند کی صحت نقل فرمائی ہے ،وہ دوسری روایت بطریق منیب بن مدرک بن منیب عن ابیہ عن جدہ ہے،[1]فرماتے ہیں :میں نے اپنی جاہلیت کے دورمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ فرمارہے تھے :(قولوا لاإلٰہ إلا ﷲ تفلحوا )یعنی :لاإلٰہ إلا اللہ کہو ،تم فلاح پاجاؤگے۔لوگو ںنے یہ سن کر بڑی بدسلوکی کی،حتی کہ کچھ لوگوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منہ کرکے تھوک ڈالا…اس کے بعد حارث الغامدی والے مذکورہ متن والا مضمون ہے،اس میں زینب کے آنے کا بھی ذکر ہے،لیکن نہ تو گریبان کھلا ہونے کا بیان ہے نہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کا ڈھانپنے کا حکم ۔ پھر فرماتے ہیں:اسے کتب ثلاثہ نے روایت کیا ہے،اور انہوں نے یہ حدیث، مدرک بن حارث الأزدی کے بارہ میں روایت کی ہے،جوپہلے گذرچکی،پھر غامدی کی مذکورہ حدیث نقل فرمائی۔[2] |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |