نے کسی التفات کے قابل نہیں سمجھا؛کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کسی طرح بھی استدلال کے قابل نہیں۔ ان علماء میں ایک بڑا نام حافظ ابوالحسن بن القطان کا ہے،جن کی کتاب (النظر فی أحکام النظر)دیکھ لی جائے۔(انہوںنے اس قسم کے دلائل کو قابل ذکر نہیں سمجھا حالانکہ ان کا علمی توسع معترف بہ ہے۔) اب ہم عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہماکی مذکورہ حدیث کے جواب کی طرف آتے ہیں، جو متعدد وجوہ سے ممکن ہے: (۱)حدیث اور اس کے جملہ شواہد میں ایسی کوئی صراحت نہیں ہے،جس سے واضح ہورہا ہو کہ بنوخثعم قبیلہ کی وہ عورت کھلے چہرے کے ساتھ آئی ،نہ ہی یہ صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھلے چہرے کے ساتھ دیکھا اوراسے برقرار رکھا، زیادہ سے زیادہ یہی مذکور ہے کہ وہ خوبصورت تھی،یا روشن چہرے والی تھی،یاپھر ایک روایت کے مطابق فضل بن عباس اسے دیکھتے رہے اور اس کاحسن انہیں متاثر کررہا تھا۔ان تمام الفاظ سے اس کے چہرے کا کھلا ہونا ثابت نہیں ہوتا،بلکہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ اس کاحسن پہلے ہی سے کسی وجہ سے معروف ہو،پھر بعض اوقات عورت کاحسن(چہرے کے بغیر) دیگر نشانیوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے،مثلاً: اس کے جسم کی بناوٹ،عمدہ تقسیم یا جسم کا بھراپن وغیرہ،یا ممکن ہے کہ کبھی کسی اضطرار کی بناء پر اس کے اطرافِ جسم میں سے کچھ ظاہرہواہو۔[1] اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے:[وَاِذَا رَاَيْتَہُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُہُمْ۰ۭ] یعنی:جب آپ انہیں دیکھیں گے توان کے جسم آپ کو اچھے لگیں گے۔ |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |